آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ: بھارتی حکومت اور فوج میں اختلاف
25 اکتوبر 2011تاہم وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے مابین اس معاملے پر اختلافات برقرار ہیں۔ اسی دوران کابینہ کے سیکرٹری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے اس معاملے پر جموں کشمیر کے دورے کے بعد اپنی رپورٹ وزارت داخلہ کے حوالے کر دی ہے۔
وزارت داخلہ نے فوج کو لامحدود اختیارات دینے والے متنازعہ AFSPA قانون میں ترمیم کا ایک مسودہ وزیر اعظم کے دفتر کو پیش کیا تھا لیکن اس کے جواب میں وزارت دفاع نے بھی جوابی میمورنڈم جمع کرایا، جس میں اس قانون میں کسی بھی ترمیم کی پرزور مخالفت کی گئی ہے۔ پچھلے ایک سال سے دونوں ہی فائلیں PMO میں دھول چاٹ رہی ہیں اور اب سب کی نگاہیں سپریم کورٹ پر لگی ہیں، جو فوج کی ایک خصوصی درخواست پر اس قانون کا جائزہ لے گی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے دو مختلف ادارے یعنی آرمی اور تفتیشی ایجنسی سی بی آئی عدالت میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہیں۔
مرکزی کابینہ کے سیکرٹری اجیت سیٹھ کی قیادت میں مختلف وزارتوں کے سیکرٹریوں پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد نے جموں کشمیر کے دوروزہ دورے کے دوران گورنر این این ووہرا، وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کو ہٹانے کے بارے میں تبادلہ خیال کے بعد یہاں نئی دہلی میں اپنی رپورٹ وزیر داخلہ پی چدمبرم کو پیش کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق اس با ت کا قوی امکان ہے کہ وادی کشمیر کے کچھ علاقوں سے یہ متنازعہ قانون ہٹا لیا جائے۔ عمر عبداللہ کی ریاستی حکومت پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وادی کے بعض حصوں میں حالات بہتر ہو گئے ہیں، اس لیے ان علاقوں سے شورش زدہ علاقہ قانون (DAA) کواٹھا لیا جائے گا، جس کے ساتھ ہی AFSPA بھی ختم ہو جائے گا۔ عمر عبداللہ کے لیے یہ معاملہ انا کا مسئلہ بھی بن گیا ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ الیکشن میں اپنے انتخابی منشور میں اس متنازعہ قانون کو ختم کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کو ظالمانہ قانون قرار دیتی ہیں۔ یہ قانون آزادی سے قبل ’بھارت چھوڑو‘ تحریک سے نمٹنے کے لیے اس وقت کی برطانوی حکومت کی طرف سے 15 اگست 1942 میں بنائے گئے سخت قانون کے خطوط پر 1958 میں بنایا گیا تھا۔ پہلے اسے شمال مشرقی ریاستوں میں نافذ کیا گیا لیکن 45 برسوں سے اس قانون کے نفاذ کے باوجود ناگالینڈ کا مسئلہ آج بھی حل نہیں ہوسکا ہے۔ جموں کشمیر میں اسے خصوصی اختیارات کے قانون کے تحت 1990میں نافذ کیا گیا تھا۔
یہ قانون کسی علاقے میں اس وقت نافذ کیا جاتا ہے، جب کسی مقامی مسئلے کو حل کرنے میں پولیس اور ریاستی انتظامیہ ناکام ہوجاتی ہے اور اس مسئلے کا تعلق ریاست کے بیرونی حصوں سے بھی جڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد علاقے کو ڈسٹربڈ ایریا قرار دے دیا جاتا ہے اور AFSPA نافذ کر دیا جاتا ہے۔
شمال مشرقی خطے میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کو ختم کرنے کے لیے ایروم شرمیلا چنو گزشتہ بارہ سال سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ پانچ نومبر سن 2000سے شروع کی گئی اس بھوک ہڑتال کو دنیا کی طویل ترین بھوک ہڑتال قرار دیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کی کارکن میدھا پاٹکر اس قانون کو واپس لینے کے مطالبے کے ساتھ عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے سری نگر سے منی پور کے طویل مارچ پر نکلی ہوئی ہیں۔
حقوق انسانی کی کارکن اور سپریم کورٹ کی مشہور وکیل ورندا گروور نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس قا نو ن کے تحت آرمی، پولیس یا سکیورٹی فورسز کو لامحدود اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے کسی بھی عمل کے لیے جوابدہ نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ’ظالمانہ‘ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ بےجا نہیں ہے۔ جب افغانستان یا عراق میں غیر قانونی حرکتوں میں ملوث کسی بھی امریکی فوجی کو سزا دی جا سکتی ہے، تو بھارتی فوج کو کس بنیاد پر قانون سے بالاتر رکھا گیا ہے۔ فوجی اہلکاروں کو کسی کو بھی گولی مار دینے کی اجازت ہے اور وہ اس کے لیے کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں۔
ورندا گرورنے کہا، ’حالانکہ وزارت داخلہ اس قانون میں ایک حد تک ترمیم کے لیے تیار ہے لیکن فوج کی طرف سے جس طرح سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کو ایک جمہوری حکومت چلا رہی ہے یا کچھ حصوں کو ہم نے فوج کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے، قانون کی خلاف ورزی کرتی رہے‘۔
بھارتی سپریم کورٹ کی اس وکیل نے کہا کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ نہ صرف بھارتی آئین بلکہ ہر طرح کے بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف ہے اور اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی فورمز پر یہ بات اٹھائی جاتی رہی ہے کہ بھارتی حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: مقبول ملک