آنکھ کا ارتقا
18 اپریل 2021تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔ یہ جملہ یا تو آپ نے کہا ہے یا آپ نے سنا ہے۔ مگر آپ کو رنگ اور روشنی کی دنیا سے جوڑتا یہ فطری کیمرہ ہزارہا سال کی تاریخ رکھتا ہے۔ آپ کی آنکھیں یوں ہی خوبصورت نہیں۔
چینی تحقیقاتی مشن چاند کے ’اوجھل حصے‘ پر اتر گیا
انسانی آنکھ سورج کے وسیع بازوؤں کے پار
آنکھ کیا ہے؟
یہ سمجھنے کے لیے کہ آنکھ کا ارتقا کیسے ہوا، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ کام کیسے کرتی ہے۔ آنکھ کیمرے ہی کی طرح ہے جو آپ کے دماغ سے منسلک ہے۔ اس کا کام روشنی حاصل کرنا اور دماغ تک پہنچانا ہے، تاکہ دماغ تصویر بنا سکے۔ آپ آئنیے میں دیکھیں گے، تو آپ کو آنکھ کے سکلرا، کورنیا، آئریس اور پوپل حصے دکھائی دیں گے، جب کہ آنکھ کے اندر کی جانب عدسہ، ریٹینا اور جیلی کی طرح کی ایک بافت ویٹریوس ہیومر ہوتی ہے۔ یہ تمام حصے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ان کا مجموعی حجم تقریباﹰ ایک 'پنگ پانگ بال‘ کے برابر بنتا ہے۔
سکلرا آپ کا آنکھ کا سفید حصہ ہے، جس میں خون کی نہایت باریک نالیاں ہوتی ہیں، تاہم یہ سفید حصہ خاصا سخت ہوتا ہے، تاکہ نالیاں اور آنکھ کا اندرونی حصہ محفوظ رہے۔ کورنیا آنکھ کی پتلی ہے، یعنی آنکھ کا بیرونی حصہ۔ یوں سمجھیے کہ آپ اور دنیا کے درمیان یہ وہ کھڑکی ہے، جس سے آپ باہر دیکھتے ہیں۔ آئرس پتلی کا رنگین حصہ ہے، جو روشنی کے تناسب سے سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ آئرس کے مرکز میں پیوپل سیاہ دائرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ دیکھنے میں شاید آپ کو یہ کوئی بند شے لگے، مگر اصل میں اسی میں وہ سوراخ ہے، جو روشنی کو آپ کے اندر لے جاتا ہے۔
آنکھ کے اندر کی جانب لینز کا کام اندر پہنچنے روشنی کو فوکس کرنا ہوتا ہے۔ اندر پہنچنے والی روشنی ویٹریوس ہیومر کی جیلی نما بافت سے گزرتی ہوئی ریٹینا یعنی پردہ چشم پر پڑتی ہے۔ یہ پردہ روشنی کو محسوس کرنے والے کروڑوں خلیات سے بنتا ہے۔ یہاں موصول ہونے والی روشنی پیغام کی صورت میں دماغ تک پہنچتی ہے، جس کے ذریعے دماغ اشکال یا اجسام کی تصویر طے کرتا ہے۔
دیکھنے کی یہ پوری حس اور مکمل عمل ایک نہایت سنجیدہ اور پیچیدہ کام ہے۔ مگر یہ پیچیدہ نظام فوراﹰ نہیں بن گیا۔
آسان سے پیچدہ
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ دیکھنے کی حس کا آغاز یک خلوی جانداروں میں ہوا۔ ان جانداروں میں آنکھ نہیں مگر 'آئی اسپاٹ‘ یا آنکھ کا مقام موجود ہے۔ یہ آئی اسپاٹ روشنی کو محسوس کرنے والے پروٹینز ہیں جو فوٹوسنتھیسز کے ذریعے اپنے لیے خوراک بناتے ہیں۔ اسے یوں سمجھیے کہ پودے کی بظاہر آنکھیں نہیں ہوتیں، مگر وہ روشنی کو محسوس کرنے کی حس رکھتا ہے۔ یک خلوی جاندار گو دیکھ نہیں سکتے، تاہم ان پروٹینز کی مدد سے پودوں کی طرح یہ ضرور جان لیتے ہیں کہ وہ اندھیرے میں ہیں یا روشنی میں۔ روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق کی حس ان کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ارتقا کے عمل میں بھی پیش پیش رہی۔
وقت کے ساتھ ساتھ یک خلوی جاندار ارتقا پاتے گئیے اور آئی اسپاٹ، روشنی محسوس کرنے والے پروٹینز کے ذریعے گڑھے کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ سائنس دانوں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اس گڑھے کا بیرونی حصہ سکڑتا گیا تاکہ اس سے تصویر واضح ہو۔ ارتقا کا یہ طویل سفر سست مگر مسلسل تبدیلیوں کے ساتھ جاری رہا۔ اسی میں ریٹینا، آئرس اور دیگر حصے بنتے چلے گئے اور لاکھوں برسوں پر محیط اس ارتقائی سفر میں آنکھ کا بیرونی حصہ سکڑتے سکڑے ایک چھید تک پہنچ گیا۔
سائنس دانوں کے اس اندازے کی بنیاد اس وقت موجود مختلف انواع کی آنکھوں یا دیکھنے کی حس کے اس سیکوئنس پر ہے، جو ان اندازوں کی توثیق کرتا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سروس کی نئی سیرز ارتقا، جس میں مختلف اور عام اصطلاحات کا ارتقائی سفر تاریخ اور تحقیق کی روشنی میں صارفین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔