ابھرتے صنعتی ممالک میں شرح نمو زیادہ: آئی ايم ايف
7 اکتوبر 2010بین الاقوامی مالياتی فنڈ نے واشنگٹن ميں جاری کردہ اپنے تازہ تريں عالمی اقتصادی جائزے يا World Economic Outlook ميں کہا ہے کہ عالمی معيشت کی بحالی کا سلسلہ مختلف رفتاروں سے آگے بڑھ رہا ہے: ترقی يافتہ صنعتی ملکوں ميں تو اقتصادی نمو کی رفتار میانہ روی سے عبارت ہے اور وہاں مشکلات کا خطرہ بھی زيادہ ہے ليکن بہت سے ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک ميں اقتصادی ترقی کی شرح خاصی زيادہ ہے۔
عالمی مالياتی فنڈ کے قومی اقتصاديات کے شعبے کے سربراہ اوليویئر بلانشرڈ کا کہنا ہے کہ سياستدانوں کی سب سے زيادہ توجہ اقتصادی عدم توازن کو دور کرنے پر ہونا چاہئے: ’’توازن ہماری رپورٹ کا اہم ترين موضوع ہے۔ سب سے پہلے رياستوں کو اپنا داخلی توازن تلاش کرنا ہو گا۔ بحران کے دوران شروع کئے جانے والے رياستی امداد کے منصوبے ختم ہو رہے ہيں اور اب نجی مانگ کو اقتصادی بحالی کا محرک بننا ہوگا۔‘‘
يوں بلانشرڈ کے مطابق نجی مانگ اور سرمايہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جانا چاہئے۔ يہ نہ صرف مختلف ممالک کے داخلی توازن کے لئے ضروری ہے بلکہ اس بہت بڑے عدم توازن پر قابو پانے کے لئے بھی ضروری ہے، جو مختلف ریاستوں کے درميان پايا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے عالمی اقتصاديات کی بحالی مسلسل خطرات سے دوچار ہے۔
اس عدم توازن کو کم کرنے کے لئے تجارتی خسارے کا سامنا کرنے والے امريکہ جيسے ملکوں کو اپنی برآمدات ميں اضافہ کرنا چاہئے۔ تاہم ايشيا کے اپنی برآمدات کے لئے مشہور ملکوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی داخلی منڈیوں ميں مانگ کو بڑھائيں تاکہ اُنہیں معاشی نمو کے لئے ہميشہ ہی برآمدات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
عالمی مالياتی فنڈ نے دنيا کے مختلف خطوں کے لئے اقتصادی نمو کے جو ايک دوسرے سے بہت مختلف اندازے قائم کئے ہيں، اُن سے بھی بہت زيادہ عدم توازن ظاہر ہوتا ہے۔ بلانشرڈ نے کہا: ’’اس وجہ سے ہم نے ترقی يافتہ ممالک ميں اقتصادی نمو کی کم شرح کا اندازہ لگايا ہے۔‘‘ اس کے برعکس ابھرتے ہوئے صنعتی ملکوں ميں اس سال اور اگلے سال اقتصادی ترقی کی شرح صنعتی طور پر ترقی يافتہ ملکوں کے مقابلے ميں تقريبًاً تين گنا زيادہ ہوگی۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک