1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اردن میں ’انٹرنیٹ اور مساجد‘ کے کنٹرول کی جنگ

امتیاز احمد14 نومبر 2014

اردن کی حکومت ’آن لائن انتہا پسندی‘ سے نمٹنے کے لیے مبلغین اور جہادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی تقریباﹰ چھ ہزار مساجد کی نگرانی بھی سخت کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DmwY
تصویر: Reuters

صحرا کا بادشاہ کہلانے والے ملک اردن کی سرحدیں عراق اور شام سے بھی ملتی ہیں۔ اس وقت ان دونوں ملکوں میں ہی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو اور متعدد جہادی تنظیمیں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اردن کی کوشش ہے کہ وہ ہر حال میں جہاد کی تبلیغ کرنے والے مقامی مبلغین کو کنٹرول کرے۔ ستمبر میں اردن نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ مخالف اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا، جس نے اردن کو سنگین خطرے میں بھی ڈال دیا تھا۔ لیکن حکام کا کہنا تھا کہ ملک کی سرحدیں محفوظ ہیں اور اس کے ساتھ ہی مقامی جہادیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران حکومت نے انٹرنیٹ کی نگرانی بھی مزید سخت بنا دی ہے۔

تجزیہ کار حسن ابو حانیہ کا کہنا ہے، ’’اردن جہادی نظریے کے خلاف جنگ شروع کر چکا ہے اور انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترمیم بھی کر چکا ہے۔‘‘ اردن میں وکیل دفاع موسیٰ عبدالات کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جب سے اردن ’اسلامک اسٹیٹ‘ مخالف اتحاد کا حصہ بنا ہے، آئی ایس سے ہمدردیاں رکھنے والے 130 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سلفی گروپ سے تھا۔‘‘ وہ لوگ، جن کے خلاف خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں یا انہیں سزا بھی سنائی جا چکی ہے، ان سب پر اکثر و بیشتر ایک جیسا ہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ انٹر نیٹ پر دہشت گرد گروپوں کے نظریے کو فروغ دے رہے ہیں۔

حکومت نے ایسی چھ ہزار مساجد کا کنڑول انتہائی سخت کر دیا ہے، جہاں جہاد کے حق میں خطبے دیے جاتے تھے۔ اردن میں وزارت مذہبی امور و مذہبی اوقاف کے ترجمان احمد عزت کا کہنا تھا، ’’ہم نے 15 اماموں (آئمہ) کی تقاریر پر پابندی عائد کر دی ہے، یہ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان میں سے متعدد منبر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے جبکہ دیگر انتہاپسندانہ نظریات پھیلا رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ مبلغین کو ’اعتدال پسند اسلام‘ کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ وہ ایسی تقاریر کریں، جن سے ریاست کے اندر بدامنی پیدا ہو یا پھر وہ کمزور ہو۔ اردن کے ہزاروں شہری اس وقت عراق میں آئی ایس اور شام میں النصرة فرنٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

حکومتی ترجمان محمد مومنی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت تین محاذوں پر جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، ’’انتہا پسندوں کے خلاف براہ راست فوجی تصادم سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا، سلامتی کے اداروں کی کوشش سے دہشت گرد تنظیموں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے اور لوگوں میں مذہبی بیداری بھی پیدا کی جا رہی ہے۔‘‘