ارشد شریف پر ٹارچر: پوسٹ مارٹم رپورٹ منظرعام پرلانےکا مطالبہ
10 نومبر 2022
بروز بدھ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ ارشد شریف کو قتل کرنے سے پہلے ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور ان کی تین انگلیوں کے ناخن نکالے گئے ہیں جب کہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی تشدد کیا گیا۔ اس خبر نے نہ صرف ملک میں رہنے والے صحافیوں میں خوف پیدا کردیا ہے بلکہ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی صحافی بھی عدم سلامتی کے خوف میں مبتلا ہو جائیں گے۔
بڑھتا ہوا خوف
واضح رہے کہ پاکستان متعدد بار صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی صف میں رہا ہے۔ فریڈیم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق دوہزار بارہ سے دوہزار بائیس تک پاکستان میں ترپن صحافی قتل ہوئے ہیں جب کہ کئی خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے ہیں اور کئی دوسروں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ طاقت ور عناصر کے کہنے پر صحافیوں کو نوکریوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
کئی صحافیوں کا خیال ہے کہ اس سے خوف اور عدم سلامتی کا احساس بڑھے گا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ٹارچر کی خبر صحافیوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صحافیوں کو پہلے بھی ملک میں ٹارچر، دھونس، دھمکی اور حراسانی کا نشانہ بنایا گیا لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستانی صحافی کو ایک دوسرے ملک میں قتل کیا گیا اور اب ٹارچر کی خبر بھی آئی ہے۔ یہ بات نہ صرف ہمارے لیے بلکہ بیرون ملک مقیم صحافیوں کے لیے بھی باعث تشویش ہے، جن میں احساس عدم تحفظ بڑھے گا۔‘‘
پاکستان، خوف کا ماحول اور ٹکڑوں میں بٹی صحافت
واضح رہے ماروی سرمد، رضا رومی، گل بخاری، صابر شاکر سمیت کئی صحافی مختلف وجوہات کی بنا پر بیرون ملک مقیم ہیں۔
سیلف سینسرشپ بڑھے گی
انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی صحافتی آزادی پر قد غنیں ہیں اور اب اس واقعے کے بعد سلیف سینسر شپ مزید بڑھے گی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ کا کہنا کہ پہلے میڈیا مالکان کی حد تک بہت سیلف سینسر شپ تھی، اب یہ صحافیوں تک ہوگی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے یہ ہوتا تھا کہ صحافی کسی خبر کی تفتیش کر لیتا تھا اور بعد میں مالکان اس خبر کو نہیں لگاتے تھے یا سینسر کرتے تھے لیکن ٹارچر کی اس خبر کے بعد صحافی تفتیشی رپورٹنگ کرتے ہوئے ڈریں گے اور ان میں سیلف سنسر شپ کا رجحان بڑھے گا۔‘‘
پوسٹ مارٹم رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے
سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے باتیں ہورہی ہیں اور یہ رپورٹ زیر گردش بھی ہے۔ جب ڈی ڈبلیو نے اس رپورٹ کو ایک ریٹائرڈ سرکاری ڈٖاکٹر کے پاس بھیج کر ٹارچر کے حوالے سے دریافت کیا، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔
اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت اب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کو منظر عام پر لے کر نہیں آئی ہے جس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ''اگر حکومت کو کسی طرح کا خوف نہیں ہے، تو اسے رپورٹ کو فوری طور پر منظر عام پر لانا چاہیے اور ساری صحافتی برادری کو یکجہتی کے ساتھ حکومت سے رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘‘
ارشد شریف کی ہلاکت، تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا، شہباز شریف
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ اس حوالے سے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں بھی کامران شاہد کے پروگرام کے ذریعے پتہ چلا کہ ارشد شریف پر ٹارچر کیا گیا ہے اور جب سے پوری صحافتی برادری میں تشویش کی لہر ہے۔ ہم تک ابھی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں پہنچی ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس رپورٹ کو فوراً منظر عام پر لایا جائے۔‘‘
بین الاقوامی تحقیقات
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے سپریم کورٹ کو بھی پی ایف یو جے لکھ رہی ہے اور ٹارچر کے حوالے سے وہ ہر سطح پر یہ مسئلہ بھی اٹھائے گی۔ ''لیکن کیونکہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بہت سارے سوالات ہیں اور اب یہ ٹارچر کی خبر بھی آئی ہے۔ لہذا ان سوالات کے جوابات کے لیے ایک شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ہماری اقوام متحدہ اور صحافیوں کی عالمی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے بین الاقوامی تحقیقات کے لیے راستہ ہموار کریں۔‘‘
سرد ردعمل
پاکستان میں یہ عام تاثر ہے کہ کیونکہ صحافی اور صحافتی تنظیمیں مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتی ہیں، اس لیے ارشد شریف کے قتل اور اب ٹارچر کی خبروں پر صحافتی برادری کا بھرپور ردعمل نہیں آیا ہے۔ واضح رہے ارشد شریف، عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم سمیت بے شمار صحافیوں کو پی ٹی آئی کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ ابصار عالم اور جیو گروپ پر ان کے ناقدین نواز شریف کے حمایتی ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
تاہم افضل بٹ اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ''بہت سارے معاملات ایسے ہوتے ہیں جس میں ہمیں مرحوم صحافی کے گھر والوں کی خواہشات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اور ان کے کہنے کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ اس قتل میں بہت سارے ابہام ہیں، جو بندہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اس نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ہیں۔ لیکن ہم پہلے دن سے ہی فیملی کے ساتھ تھے اور ہم نے اس پر احتجاج بھی کیا اور کانفرنس بھی کی۔ ہم اب اس ٹارچر کے معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور ہر پلیٹ فارم پر اس کو اٹھائیں گے۔‘‘
فوجی افسران کی پریس کانفرنس تبصروں اور تجزیوں کی زد میں
مظہر عباس پی ایف یو جے کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ''بہت سارے سوالات جواب طلب ہیں۔ اس لیے صحافتی تنظیموں کا ردعمل بھی اسی کے مطابق تھا اور وہ انتظار کر رہے تھے کہ اس کے حوالے سے حقائق سامنے آئیں۔‘‘
صحافی خوف کو شکست دیں گے
جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کے خیال میں اس واقعے سے صحافیوں میں خوف کی فضا پیدا ہو گئی، وہیں مظہر عباس پُرامید ہیں کہ صحافی برادری اس خوف کو توڑے گی۔ '' صحافیوں کو ماضی میں بھی بہت ساری مشکلات اور خطرات کا سامنا رہا۔ انہوں نے جیل کاٹی، کوڑے کھائے اور تمام طرح کی مشکلات کا سامنا کیا لیکن انہوں نے بہادری سے ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کیا اور مجھے اب بھی یقین ہے کہ وہ تمام طرح کے چیلنجز کے لیے تیار ہیں۔‘‘