1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی انتخابی میدان، اہم کھلاڑی کون کون ہیں؟

9 اپریل 2019

اسرائیلی میں آج منگل کے روز منعقدہ عام انتخابات میں چالیس سے زائد جماعتیں میدان میں ہیں۔ 120 رکنی پارلیمان میں کم ازکم 61 نشستوں کی حامل جماعت یا اتحاد آئندہ حکومت سازی کر پائے گا۔

https://p.dw.com/p/3GVF4
Israel Parlamentswahl
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty

اسرائیلی انتخابات میں دائیں بازوں کا اتحاد، سینٹرسٹ، الٹرا آرتھوڈاکس جماعتیں، عرب جماعتیں اور دیگر تحریکیں شرکت کر رہی ہیں۔ تاہم کنیسٹ کہلانے والی اسرائیلی پارلیمان تک رسائی کے لیے مجموعی ووٹوں کا کم از کم تین اعشاریہ دو پانچ فیصد ووٹ لینا ضروری ہے۔

اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے، جہاں حکومت سازی کے لیے ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں 61 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم آج تک اسرائیل میں کبھی کوئی جماعت 61 سے زائد نشستیں حاصل نہیں کر پائی، اس لیے وہاں عموماﹰ حکومت مختلف جماعتوں کے اتحاد سے بنتی ہے۔

’بھارتی اور اسرائیلی عوام کو غصہ نہیں آتا ؟‘

’مغربی اردن کی یہودی آبادیوں کو اسرائیل کا حصہ بنا دوں گا‘

عوامی جائزوں کے مطابق وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی لیکوڈ اور سینٹرسٹ جماعت بلو اینڈ وائٹ پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئیں اور پھر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اتحادی حکومت قائم کر لیں۔

اسرائیل میں سن 1977 سے لیکوڈ پارٹی ایک مضبوط سیاسی قوت رہی ہے اور چند مواقع کے علاوہ حکومت اسی جماعت کے ہاتھ میں رہی ہے۔ گزشتہ قریب ایک دہائی سے اس جماعت کی طاقت کی ایک وجہ نیتن یاہو کی شخصیت بھی ہے۔

نیتن یاہو اسرائیلی آبادکاروں کے حق میں رہے ہیں جب کہ ان کی جانب سے قوم پرستوں اور الٹرا آرتھوڈاکس جماعتوں کی بھی خوش نودی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ گزشتہ انتخابات میں لیکوڈ پارٹی کو حکومت سازی کے لیے عوامیت پسند مِزراہی جماعت کی حمایت لینا پڑی تھی۔

اسرائیلی اٹارنی جنرل کی جانب سے نیتن یاہو کے خلاف سنجیدہ نوعیت کی بدعنوانی کے تین الزامات کے باوجود عوامی جائزے نیتن یاہو کو ایک مقبول لیڈر بتا رہے ہیں۔ اگر نیتن یاہو یہ انتخابات جیتنے اور حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ اسرائیلی تاریخ میں طویل ترین مدت تک وزیراعظم رہنے والے رہنما بن جائیں گے۔

تاہم ان کے مدمقابل سابق فوجی سربراہ بینی گانٹس ہیں، جنہوں نے رواں برس ہی سیاسی جماعت قائم کی اور چند ہی ہفتوں میں انہوں نے سینٹریسٹ جماعتوں اور سابق ٹی وی میزبان یائر لاپِڈ، جو یش آتد جماعت کے سربراہ بھی ہیں، کو ساتھ ملا کر سیاسی میدان میں خود کو نمایاں کر لیا۔ نیتن یاہو کے خلاف اس اتحاد کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق گانٹس نے نیتن یاہو کے خلاف الزامات کو عمدہ انداز سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور ان کا انتخابی نعرہ ’شفاف حکومت، اقتصادی اصلاحات اور اسرائیلی ریاستی اداروں کے لیے عزت‘ کا ہے۔

ع ت، ک م (روئٹرز، اے ایف پی)