اسرائیلی ايتھليٹس کے بائیکاٹ کے سلسلے میں بتدریج کمی
28 مئی 2020اسرائیلی ایتھلیٹس کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ کسی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں ایسے ملکوں کے ایتھلیٹس ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کو بطور ایک ریاست تسلیم نہیں کیا ہوتا اور سفارتی روابط نہیں رکھتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ میچ یا مقابلے کے وقت مدِ مقابل سامنے ہی نہیں آتا اور اسرائیلی ایتھلیٹ کو بغیر مقابلے کے فتح مند قرار دے دیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اسرائیل سے روابط نہ رکھنے والے ممالک کے کھلاڑی، اپنے اسرائیلی مدمقابل سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیتے ہيں۔
ایسا ٹینس، کُشتی یا ریسلنگ، تلوار بازی یا فینسنگ سے لے کر اسنوکر کے کھيلوں میں دیکھا جا چکا ہے۔ حتیٰ کہ خصوصی افراد کی کھیلوں یا پیرالمپکس میں پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل فٹ بال میچ کا ایرانی ٹیم نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ سب سے زیادہ اسرائیلی ایتھلیٹس کو جوڈو کے مقابلوں میں بائیکاٹ کا سامنا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کی طرح اسرائیل بھی جوڈو کھیل کا ایک پاور ہاؤس خیال کیا جاتا ہے مگر يہ دونوں ممالک روايتی حريف ہيں۔ اسرائیل کو اب تک نو اولمپک میڈل ملے ہیں اور ان میں سے پانچ جوڈو میں ملے۔ جوڈو ميں پہلا تمغہ اسرائیلی خاتون ایتھلیٹ یائیل اراد کو سن 1992 میں کھیلے گئے بارسلونا اولمپکس میں ملا تھا۔
جوڈو میں اسرائیل کے بہترین ایتھلیٹ کا نام یوئیل رازوزوف ہے۔ انتالیس برس کے اس ایتھلیٹ نے سن 2004 اور 2005ء کی یورپی چیمپئن شپ میں چاندی کے تمغے حاصل کیے تھے۔ انہیں ایتھنز اولمپکس میں مدمقابل کے بائیکاٹ کا سامنا رہا۔ رازوزوف کا کہنا ہے کہ انہیں کئی مرتبہ اپنے حریفوں پر افسوس ہوا کہ وہ مقابلے اور تمغہ جیتنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن ملکی پالیسیوں کی وجہ سے وہ اپنی خواہش کی تکمیل نہیں کر پائے۔ رازوزوف کے مطابق بائیکاٹ کے اعلان پر ایسے ایتھلیٹس کی آنکھوں میں انہوں نے مایوسی اور آنسو بھی دیکھے۔
اسرائیل کے مشہور ایتھلیٹ یوئیل رازوزوف کا کہنا ہے کہ جب جیتنے کی ہمت ہو لیکن ممالک کے درمیان پائی جانے والی سیاست اور میڈیا کی منفی مفادات ایتھلیٹس کی صلاحیتوں کو پہلے کمزور اور پھر ضائع کرنے میں منفی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیلی ایتھلیٹ اس وقت ملکی پارلیمنٹ کنیسٹ کے رکن ہیں۔ انہوں نے بطور رکن پارلیمنٹ ایک ٹاسک فورس قائم کر رکھی ہے اور اس کا مقصد بائیکاٹ کرنے کی پالیسیوں سے نمٹنا ہے۔
اسرائیلی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ موجودہ اور سابقہ کھلاڑیوں نے بھی بائیکاٹ کے خلاف اپنی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ اسرائیلی جوڈو ایسوسی ایشن کے سربرہ چونسٹھ سالہ سابقہ جوڈو کھلاڑی موشے پونٹے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل جوڈو فیڈریشن پر واضح کیا جا چکا ہے کہ بین الاقوامی میچوں میں بائیکاٹ کا عمل، کھیل کے جذبے کے منافی ہے۔ پونٹے کا کہنا ہے کہ اس عمل میں فوری تبدیلی تو ممکن نہیں لیکن اس میں مرحلہ وار تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔
اس تناظر میں ایک بڑی تبدیلی سن 2018 میں ابو ظہبی میں منعقد ہونے والا گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ تھا۔ اس میں مقامی انتظامیہ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اسرائیلی ایتھلیٹ ملکی پرچم کے ساتھ شریک ہوں گے۔ اکاسی کلوگرام کی کیٹگری میں اسرائیلی ایتھلیٹ ساگی موکی نے جب گولڈ میڈل جیتا تو مسلمان عرب ملک متحدہ عرب امارات میں پہلی بار اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا۔ اس ٹورنامنٹ میں ایرانی ایتھلیٹ سعید ملائی بھی شریک تھے اور وہ فیورٹ تھے۔ سیمی فائنل جیتنے پر انہیں ساگی موکی کا سامنا کرنا تھا لیکن انہوں نے سیمی فائنل میں خود کو زخمی قرار دے کر ٹورنامنٹ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
سن 2018 کی ٹوکیو ميں منعقدہ ورلڈ جوڈو چیمپئن شپ میں بھی سیمی فائنل میچ میں سعید ملائی نے خود کو دانستہ طور پر ہروا دیا تھا تاکہ فائنل میں وہ ساگی موکی کا مقابلہ نہ کريں۔ بعد میں ملائی نے ایران واپس جانے کے بجائے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ چین میں ملائی نے اسرائیلی ایتھلیٹ ساگا موکی کو اپنا بہترین دوست قرار دیا۔ اسرائیلی جوڈو ایسوسی ایشن کے صدر نے موکی کو دوست کہنے پر انہیں ہیرو قرار دیا ہے۔
اسرائیلی ایتھلیٹوں سے ہاتھ نہ ملانے یا مقابلے سے انکار کے اکثر واقعات میں اسلامی جمہوریہ ایران ہی کے کھلاڑیوں کو ملوث پايا گیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، لبنان، الجزائر اور تیونس جیسے ملک بھی ہیں جن کے ایتھلیٹس اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ میچ کھیلنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ایسا کرنے والے بیشتر ملکوں نے سن 1948 سے اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔
ع ح، ع س (فیلکس ٹام زوٹ)