اسرائیلی فلسطینی قیدیوں کی ڈیل، جرمن مذاکرت کار غزہ میں
23 دسمبر 2009حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے اسرائیلی کابینہ میں شامل کچھ اہم وزراء نے مشروط طور پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ اس بارے میں اسرائیلی وزیراعظم بین یامن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ میں شامل چھ اہم وزراء نے پیر اور منگل کی درمیانی شب اہم مذاکرات میں کچھ تجاویز مرتب کی ہیں۔
اگرچہ کابینہ میں زیر بحث لائی گئی اُن تجاویز کو ابھی تک عام نہیں کیا گیا، تاہم بدھ کو اسرائیل کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ کابینہ میں یہ ڈیل اس وقت منظور کی جائے گی جب غرب اردن سے تعلق رکھنے والے 120 قیدی رہائی کے بعد یا تو غزہ پٹی بھیجے جائیں یا پھر جلا وطنی اختیار کر جائیں۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حماس اس اسرائیلی شرط کو منظور کرے گی یا نہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسی شرط کو لے کر جرمن مذاکرت کار حماس جنگجوؤں سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی حتمی معاہدہ جلد ازجلد طے ہو سکے۔
دریں اثناء حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس ڈیل میں تعطل پیدا کر رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ ایسے خطرناک جنگجو جو مبینہ طور پر کئی اہم حملوں میں ملوث رہے ہیں، وہ اس صورت میں رہا کئے جائیں گے کہ وہ غرب اردن واپس نہ جائیں۔
اسرائیل اور فلسطینی زرائع کے مطابق اس ممکنہ ڈیل کی صورت میں حماس گیلاد شالت کو رہا کریں گے جبکہ اسرائیل اس کے بدلے میں فوری طور پر کل ساڑھے چار سو قیدی رہا کرے گا جبکہ پانچ سو قیدی دوسرے مرحلے میں رہا کئے جائیں گے۔ اس وقت اسرائیلی جیل خانوں میں کم ازکم آٹھ ہزار فلسطینی قید ہیں۔ اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کو 25 جون دو ہزار چھ کو فلسطینی شدت پسندوں نے اغواء کر لیا تھا۔
اسرائیل ماضی میں بھی کئی مرتبہ اپنے فلسطینیوں کی طرف سے یرغمالی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی یا ہلاک شدہ فوجیوں کی جسمانی باقیات کے بدلے میں بہت سے فلسطینی قیدی رہا کر چکا ہے،
یہ امر بھی اہم ہے کہ بالخصوص مشرق وسطیٰ میں قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے جرمنی کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ جرمنی نے اس سے قبل بھی اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ کے مابین ثالثی کرتے ہوئے قیدیوں کے تبادلے ممکن بنائے ہیں۔
رپورٹ : عاطف بلوچ
ادارت: عدنان اسحاق