1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیلی فوج کو گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر رہنے کا حکم

13 دسمبر 2024

اسرائیلی وزیر دفاع کےمطابق فوج کا ملکی سلامتی کے لیے کوہ ہرمون کی چوٹی پر موجود رہنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیلی فوج گزشتہ اختتام ہفتہ پر شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شامی سرحد پر بفرزون میں داخل ہوئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4o6QO
شامی باغیوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے چند گھنٹے بعد اسرائیل نے اتوار کو اس غیر فوجی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا
شامی باغیوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے چند گھنٹے بعد اسرائیل نے اتوار کو اس غیر فوجی علاقے پر قبضہ کر لیا تھاتصویر: Matias Delacroix/AP Photo/picture alliance

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ملکی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیلی اور شامی افواج کے درمیان اقوام متحدہ کے گشت والے بفر زون میں موسم سرما کے دوران ''رہنے کے لیے تیار‘‘ رہیں۔ شامی باغیوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے چند گھنٹے بعد اسرائیل نے اتوار کو اس غیر فوجی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس کے بعد سے، اسرائیلی فوج نے شام کے فوجی اثاثوں کے خلاف سینکڑوں فضائی اور بحری حملے شروع کر دیے، جن میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ ذخیروں سے لے کر فضائی دفاع کی تنصیبات تک ہر چیز کو نشانہ بنایا گیا، تاکہ انہیں باغیوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جا سکے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز فوجی حکام کے ہمراہ گولان کی پہاڑیوں پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز فوجی حکام کے ہمراہ گولان کی پہاڑیوں پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئےتصویر: Kobi Gideon/Israel Gpo via ZUMA Press Wire/picture alliance

بفر زون میں اسرائیلی فوجیوں کی تعیناتی کا منصوبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب کئی مہینوں تک حزب اللہ کے عسکریت پسندوں سے لڑنے کے بعد اسرائیلی افواج نے اب جنوبی لبنان سے انخلا شروع کر رکھا ہے اور غزہ میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ اس کی جنگ ​​جاری ہے۔

کاٹز کے ترجمان نے آج بروز جمعہ ایک بیان میں کہا، ''شام کی صورت حال کی وجہ سے، کوہ ہرمون کی چوٹی پر اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنا سکیورٹی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر چیز کی جانا چاہیے کہ (فوج کی) اس جگہ پر تیاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ موسمی حالات کے چیلنج کے باوجود انہیں وہاں رہنے کے قابل بنایا جا سکے۔‘‘

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے دفاع کے لیے اس بفر زون پر قبضہ کر لیا ہے۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا  تھا کہ اسد حکومت کے خاتمے نے ''اسرائیل کی سرحد پر اور بفر زون میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے۔‘‘ اس بیان کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی ''یہ تعیناتی اس وقت تک عارضی طور پر کی گئی ہے، جب تک کہ ایک فورس جو 1974 (جنگ بندی) کے معاہدے کے تناظر میں قائم نہیں ہو جاتی اور ہماری سرحد پر سکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔‘‘

اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شام میں گولان کی پہاڑیوں کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران بھی اس علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور 1981 میں اس علاقے کو ایک اقدام کے تحت باقاعدہ ضم کر لیا، ابھی تک اسے صرف امریکہ نے اسرائیل کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شام میں گولان کی پہاڑیوں کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا
اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شام میں گولان کی پہاڑیوں کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھاتصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO

اسرائیل کی جانب سے بفر زون پر قبضے نے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تنقید کو جنم دیا ہے، جس میں اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش بھی شامل ہیں۔ ان کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ گوٹیرش  شام کی ریاستی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی حالیہ اور وسیع خلاف ورزیوں پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا، ''سیکرٹری جنرل شام میں متعدد مقامات پر سینکڑوں اسرائیلی فضائی حملوں پر خاص طور پر فکر مند ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بفر زون پر قبضہ 1974 کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

گوٹیرش نے ''معاہدے کے فریقین پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو برقرار رکھیں، بشمول علیحدگی کے علاقے میں تمام غیر مجاز موجودگی کو ختم کرنے اور گولان میں جنگ بندی اور استحکام کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی اقدام سے گریز کرنے کے۔‘‘

اسرائیل کے اہم فوجی اتحادی امریکہ نے اسرائیل کی اس دراندازی کو ''عارضی‘‘ قرار دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس بات پر تشویش ہے کہ کیمیائی یا دیگر اسٹریٹیجک ہتھیاروں کا کوئی باقی ذخیرہ جو بشار الاسد کی افواج کے پاس تھا، جہادی گروپوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے، جو انہیں اسرائیل کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔

ش ر⁄ م م  (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

بشار الاسد کے بعد شام کا مستقبل کیسا ہو گا؟