اسرائیل اور حزب اللہ کے تنازعے میں ایران کا کردار
27 ستمبر 2024حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلح تصادم میں اگرچہ ایران اس شیعہ جنگجو گروہ کی حمایت کر رہا ہے لیکن تہران جانتا ہے کہ کوئی نئی جنگ ایران کی تباہ حال معیشت کو مزید ابتر بنا سکتی ہے۔
ایران پہلے ہی عالمی پابندیوں کے نتیجے میں اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی جارحیت میں ایران اگر اپنے اس اتحادی جنگجو گروہ کی حمایت اور مدد جاری رکھتا ہے تو تہران حکومت کو مزید عالمی پابندیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد غزہ میں مسلح تصادم شروع ہوا تھا تو لبنانی جنگجو گروہ حزب اللہ اسرائیل میں سرحد پار فائرنگ و شیلنگ شروع کر دی تھی۔
تاہم حالیہ دنوں میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین کشیدگی کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے۔ حزب اللہ اسرائیلی سرزمین پر راکٹ حملے کر رہا ہے جبکہ جوابی طور پر اسرائیلی دفاعی افواج لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کر رہی ہیں، جن میں شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔
حزب اللہ کو عسکری مدد کی ضرورت ہے؟
اس نئی کشیدگی میں ایران براہ راست ملوث ہونے سے اجتناب کر رہا ہے۔ ایران کے سیاسی تجزیہ نگار حمید غلام زادہ کے بقول ایران کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ خبر رساں اے ایف سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اللہ کو مدد چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ایران اس کی مدد نہیں کرتا تو وہ بآسانی شکست سے دوچار ہو جائے گا۔
سیاسی ریسرچر عفیفہ عابدی کے مطابق ایران حزب اللہ کے لیے اپنی حمایت کا جائزہ لے رہا ہے تاہم انہوں نے بھی کہا کہ حزب اللہ کو انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ ایرانی امور کے ماہر علی واعظ کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے کہ ایران براہ راست کسی کشیدگی کا حصہ نہیں بنے گا کیونکہ اس طرح نہ صرف اسرائیل کو فائدہ ہو گا جبکہ یہ بات امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج پر بھی اثر انداز ہو گی۔
علی واعظ کے بقول، ''ایران اپنے کٹر دشمن کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہتا، ایران کی ترجیح پابندیوں میں نرمی اور کچھ معاشی استحکام حاصل کرنا ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران ایرانی حکومت امریکہ کو طیش دلائے بغیر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
ایران کو پابندیوں کا سامنا
ایران کو مغربی پابندیوں کا سامنا ہے، خاص طور پر اس وقت سے جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے 2018 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
یورپی ممالک نے بھی یوکرین جنگ میں روس کو بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایران پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے جبکہ صدر مسعود پزشکیان نے نیو یارک میں کہا ہے کہ ایران ’’یورپ اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔‘‘
ایرانی صدر نے کہا کہ ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی کشیدگی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو مضبوط کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ٹرمپ کو اقتدار میں واپس آنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’’ایرانی مفادات کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔‘‘
اس تحمل کے ساتھ ایران البتہ حزب اللہ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خبردار کیا ہے کہ تہران اسرائیلی حملوں سے لا تعلق نہیں رہے گا۔
ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھی زور دیا ہے کہ وہ فوری کارروائی کرے اور اسرائیل کو 'خطرناک نتائج‘ کی تنبیہ کرے۔
اے ایف پی، اے پی (ع ب/ ع ت / ش ر)