1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل اور سعودی عرب: مشرق وسطٰی میں نئے بہترین دوست؟

عدنان اسحاق کیرسٹن کنپ
29 نومبر 2017

ایران سے خطرے کے گمان کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل نے سفارتی روابط کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ اس پیش رفت سے مشرق وسطٰی میں سیاسی طاقت کا توازن مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2oRpS
تصویر: Imago/imagebroker

نومبر کے وسط میں اسرائیلی افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف غادی ایزنکوت اس وقت ذرائع ابلاغ میں نظر آئے جب انہوں نے واضح انداز میں ایک جانب اسرائیل کے ایران کے ساتھ اور دوسری جانب سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کی۔ یہ باتیں انہوں نے ایک سعودی انٹرنیٹ ویب سائٹ ’ایلاف‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیں۔ ایلاف کے سربراہ صحافی عثمان العمیر کے سعودی اخبار الشرق الوسط کی انتظامیہ سے بہت قریبی روابط ہیں اور یہ اخبار شاہ سلمان کی ملکیت ہے۔

غادی ایزنکوت نے بتایا کہ اسرائیل ایران کے خلاف خفیہ معلومات اور دیگر تفصیلات معتدل عرب ریاستوں کو مہیا کرنے پر تیار ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل سعودی عرب کو یہ معلومات فراہم کر چکا ہے؟ انہوں نے کہا، ’’ضرورت پڑنے پر ہم معلومات کے تبادلے پر تیار ہیں۔ ہمارے بہت سے مفادات مشترکہ ہیں۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے بہت واضح انداز میں کہا کہ ’اسرائیل خطے میں ایران کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے‘۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو بھی ریاض اور یروشلم کے باہمی روابط کا از سر نو جائزے لینے کی جانب اشارہ کر چکے ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan

 

محتاط بیان بازی

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ دونوں ممالک غیر سرکاری سطح پر ایک دوسرے کے حوالے سے بیان بازی میں کافی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف کا ایک سعودی ویب سائٹ کو انٹرویو دینا اسی امر کا ایک واضح ثبوت ہے۔ سعودی فوج کے ایک سابق جنرل انور اشکی بھی کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔  انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ دونوں ممالک کے روابط ابھی تک صرف غیر رسمی تھے۔ اشکی جولائی میں یروشلم کا دورہ کرنے والے سعودی وفد کے سربراہ بھی تھے۔ اس وفد نے اسرائیلی پارلیمانی ارکان سے بھی ملاقات کی تھی۔

سعودی عرب کے ساتھ فضائی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل

سعودی عرب ایران کی طاقت سے خبردار رہے، صدر روحانی

عراق اور سعودی عرب میں قربت سے ایران پر کیا اثر پڑے گا؟

 

مشرق وسطی پر اثرات؟

یہ ابھی غیر واضح ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کی قربت کے مشرق وسطٰی کے پورے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے عرب دنیا فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی آئی ہے۔ تاریخی طور پر عراقی آمر صدام حسین اور شامی صدر بشارلاسد جیسے مطلق العنان حکمران اسرائیل دشمنی کو اپنے جابرانہ طرز حکومت کے جواز کے طور پر پیش کرتے رہے۔ ان کی جانب سے مسلسل بیان بازی نے عوامی رائے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔

’جمہوری محاذ برائے آزادی فلسطین‘ کے قیس عبدالکریم کے مطابق تاہم اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب سے نئے روابط کے بارے میں بیان بازی صرف ذرائع ابلاغ تک ہی محدود رہے گی۔ ان کے بقول جب تک ریاض حکومت ان تعلقات کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کرے گی، اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ اس کے روابط معمول پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔