اسرائیل اور فلسطینیوں کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے، جان کیری
2 جنوری 2014مشرقی وسطیٰ امن مذاکرات کے حوالے سے امریکا کا اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے پیغام بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ سخت فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کیری فریقین کے مابین امن معاہدے کے حوالے سے اپنی تجاویز لے کر گئے ہیں۔ وہ پہلے ہی امن مذاکرات کے تناظر میں اشارہ دے چکے ہیں کہ ان کا منصوبہ کافی پیچیدہ ہے اور فریقین کے لیے اسے تسلیم آسان نہیں ہو گا۔
اندازوں کے مطابق کیری اسرائیلی وزیراعظم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ 1967ء سے پہلے والی سرحدوں کو کچھ ترامیم کے ساتھ تسلیم کر لیں۔ دوسری جانب فلسطینی صدر کو خوف ہے کہ ان پر اسرائیل کو یہودیوں کے وطن کے طور پر قبول کرنے کے لیے زور ڈالا جا سکتا ہے۔ اس طرح ان فلسطینیوں کا اِس خطے میں دوبارہ آباد ہونے کا حق چھن جائے گا، جو 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہجرت کر گئے تھے یا بے دخل کر دیے گئے تھے۔ کیری کے بقول فریقین کے مابین اتفاق رائے کی صورت میں ہی امن معاہدے کے معاملے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ کیری اپنے اس دورے کے دوران اپنا منصوبہ نافذ کرنے کی کوشش یا فریقین سے حتمی جواب طلب نہیں کریں گے۔ وہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس سے ہونے والی ملاقاتوں میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ایک طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہنے والے امن مذاکرات کا آغاز گزشتہ برس موسم گرما میں ہوا تھا۔ اس موقع پر کہا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ امن معاہدہ نو ماہ کے دوران طے پا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ معاملہ اپنے نکتہ عروج پر آ گیا ہے اور معاہدے کا طے ہونا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔
فلسطینی حکام اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے مسئلے پر ناخوش ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان میری ہیرف کے بقول جان کیری نے اس تنازعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا فریم ورک تیار کیا ہے۔ اس میں یروشلم کی سرحدوں، مہاجرین کا مسئلہ، یہودی بستیوں کی تعمیر اور سلامتی کے موضوع پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ وزیر خارجہ بننے کے بعد جان کیری کا خطے کا یہ دسواں دورہ ہے۔ اس دوران فریقین کے مذاکرات کاروں کے مابین بات چیت کے تقریباً بیس دور ہو چکے ہیں۔