’اسرائیل کو یہودی بستیوں کی تعمیر روکنی چاہیے‘
1 جولائی 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے مشرق وسطیٰ امن کوارٹیٹ کے ایک ایسے مسودے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں یروشلم حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ یہودی بستیوں میں توسیع کو سلسلے کو روکیں، فلسطینیوں کو تعمیر و ترقی کی اجازت دیں اور فلسطینیوں کی آئندہ ریاست کے لیے مجوزہ زمین کو اسرائیلی استعمال کے لیے مخصوص کرنے کا سلسلہ بند کریں۔ اس مسودے کا ایک مقصد تعطّل کے شکار مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی بھی بتایا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایسی یہودی بستیوں کو اقوام متحدہ اور کئی ممالک غیر قانونی قرار دیتے ہیں اور ان میں تقریباً چھ لاکھ اسرائیلی آباد ہیں۔
اس سے پہلے عالمی سلامتی کونسل میں یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے مندوب برائے مشرقِ وُسطیٰ نکولائی ملاڈینوف نے تین عوامل گنواتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کی طرف سے پُر تشدد واقعات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ حماس کے زیر انتظام غزہ پر فلسطینی انتظامیہ کا کنٹرول بھی فوری طور پر بحال ہونا چاہیے۔ اس رپورٹ کے مطابق،’’اسرائیل کی طویل عرصے سے جاری مداخلت کے بارے میں جائز سولات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ماضی میں چند اسرائیلی وزراء یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک فلسطینی ریاست کبھی نہیں بنے گی۔‘‘ اس کی ایک مثال مارچ 2015ء کی ہے، جب انتخابات سے ایک روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کسی فلسطینی ریاست کے قیام سے انکار کیا تھا تاہم چند روز بعد ہی انہوں نے اپنے بیان کو تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ دو ریاستی حل کی بات کی تھی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اس رپورٹ کا اس وجہ سے بھی سیاسی وزن ہے کیونکہ اس میں اسرائیل کے حلیف ملک امریکا کی بھی رائے شامل ہے۔ امریکا نے گزشتہ برسوں کے دوران مشرق وسطٰی امن مذاکرات کو بحال کرنے کی متعدد ناکام کوششیں کیں۔ اس دوران نیتن یاہو اور صدر اوباما کے باہمی روابط بھی کئی مرتبہ تلخی کا شکار ہوئے۔
چہار فریقی بین الاقوامی گروپ برائے مشرقِ وُسطیٰ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر ’سی ایریا‘ کہلانے والے علاقے کے ستر فیصد حصے پر اپنی سرگرمیاں روک دینی چاہیں۔ اس ستر فیصد میں سے ساٹھ فیصد مقبوضہ غرب اردن کا وہ علاقہ ہے، جس کے زیادہ تر حصے پر کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے جبکہ یہاں پر قدرتی وسائل بھی موجود ہیں۔