اسرائیل کے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے
9 ستمبر 2024اسرائیلی فورسز کی جانب سے پیر کے روز بتایا گیا کہ جنوبی لبنان میں عسکری تنظیم حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر ایک بیان میں اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے کہا گیا کہ گزشتہ شب طیبہ، حانین، یارین اورکفرکلا کے علاقوں میں حزب اللہ کے عسکری ڈھانچے اور ایک راکٹ لانچنگ سائٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تمام علاقے اسرائیل سے لگنے والی لبنانی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق جنوبی لبنان میں خربہ سلم نامی گاؤں میں بھی حزب اللہ کے ایک عسکری ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا۔
چند روز قبل حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل اور راکٹ داغے گئے تھے۔
عسکری توجہ اب لبنان پر ہونا چاہیے، بینی گینٹس
اسرائیلی جنگی کابینہ کے سابق رکن بینی گینٹس نے ابھی جمعے کے روز ہی کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنی توجہ اب حزب اللہ کی جانب مبذول کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل پہلے ہی اس کام میں تاخیر کا شکار ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ غزہ میں گزشتہ برس اکتوبر میں جنگ کے آغاز کے بعد سے لبنانی اسرائیلی سرحد پر اسرائیلی فورسز اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہیں۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے یہ کارروائیاں عسکریت پسند تنظیم حماس کی حمایت میں کی جا رہی ہیں، جو وہی تنظیم ہے جس کے پچھلے سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر ایک دہشت گرادانہ حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی حملوں کا آغاز ہوا تھا۔
گینٹس نے اسی تناظر میں کہا، ''غزہ سے نمٹنے کے لیے ہماری کافی فورسز وہاں موجود ہیں۔ ہمیں اب اپنے ملک کے شمال کی جانب توجہ مبذول کرنا چاہیے۔‘‘
واشنگٹن میں ایک مڈل ایسٹ فورم سے خطاب میں سابق اسرائیلی فوجی سربراہ اور موجودہ سیاست دان گینٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ ایرانی پراکسیز ہیں۔ ''شمال (کی طرف توجہ دینے) کا وقت آ چکا ہے اور میرے خیال میں ہم پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔‘‘
گینٹس کا کہنا تھا کہ سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے اور ملک کے شمال میں حزب اللہ کی جانب سے بڑھتے حملوں کے تناظر میں وہاں مختلف علاقے خالی کرانا ایک غلطی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو اسرائیل لبنان پر ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے بقول، ''حماس ایک پرانی خبر بن چکی ہے۔ اب کہانی ہےایران اور اس کی پراکسیز کی، جو پورے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہمیں اس حقیقی مسئلے سے نمٹنا ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ گینٹس نے رواں برس جون میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جنگی کابینہ یہ کہہ کر چھوڑ دی تھی کہ نیتن یاہو غزہ کے لیے جنگ کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔
غزہ کے شمال مغربی رہائشی علاقے خالی کرنے کا حکم
اسی دوران اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کے کچھ مزید شمال مغربی رہائشی علاقے خالی کیے جانے کا حکم دے دیا ہے۔ ایک فوجی بیان کے مطابق اس علاقے سے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی علاقے اشکیلون کی جانب اتوار کو راکٹ داغے، جس کے بعد فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ آج پیر کو جاری کردہ ایک فوجی بیان میں کہا گیا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے داغا گیا ایک راکٹ ہوا ہی میں تباہ کر دیا گیا جب کہ دوسرا سمندر میں جا گرا۔
یہ بات اہم ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں تقریباﹰ بارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے اور قریب ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں وسیع تر فضائی اور زمینی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور سب سے پہلے غزہ پٹی کا تمام تر شمالی حصہ ہی خالی کرایا گیا تھا۔
غزہ میں وزرات صحت کے مطابق وہاں جاری حملوں میں اب تک چالیس ہزار نو سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
غزہ میں فائربندی اولین ترجیح، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی قانون کی ''کھلی خلاف رزیوں‘‘ کو رکوانے کے لیے اقدامات کریں۔
انہوں نے کہا، ''جنگ کا خاتمہ اور اس جنگ کے علاقائی پھیلاؤ کو روکنا سب سے اہم اور فوری ترجیح ہے۔‘‘
فولکر ترک نے یہ بات جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے پانچ ہفتوں پر محیط نئے سیشن کے آغاز پر کہی۔ ان کا کہنا تھا، ''ریاستیں ہر حال میں بین الاقوامی قانون بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بائنڈنگ احکامات اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کی خلاف ورزیوں کو کسی صورت برداشت نہ کریں۔‘‘
ع ت / م ا، م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)