اسرائیل کے لبنان پر نئے حملے، عالمی برادری کی تشویش
24 ستمبر 2024اسرائیل نے منگل کے روز بھی لبنان میں حزب اللہ کے اہداف پر نئے فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حزب االلہ پر دباؤ برقرار رکھے گا۔ دوسری جانب حزب اللہ نے بھی منگل کے روز اسرائیل پر نئے میزائل داغے ہیں۔
آج کے حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب گزشتہ روز اسرائیل نے لبنان میں متعدد فضائی حملے گئے تھے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ پیر کے روز اسرائیل کے فضائی حملوں میں 558 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 50 بچے اور 94 خواتین بھی شامل ہیں۔ حکام نے زخمیوں کی تعداد 1835 بتائی ہے جبکہ دسیوں ہزار لوگ متاثرہ علاقوں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین جھڑپیں مزید شدید ہونے کا خدشہ
دوسری جانب اسرائیل کے فوجی سربراہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف حملوں میں تیزی لائی جائے گی۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہیرزی ہالیوی نے سکیورٹی کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے، ''صورتحال تمام میدانوں میں مسلسل اور شدید کارروائی کی متقاضی ہے۔‘‘
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے رات بھر حزب اللہ کے درجنوں اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حزب اللہ نے متعدد اسرائیلی فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ حزب اللہ کے مطابق اس نے ایک دھماکا خیز مواد تیار کرنے والی فیکٹری اور شمالی اسرائیلی قصبے عفولہ کے قریب میگیدو ایئر فیلڈ پر حملے کیے ہیں۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے منگل کے روز لبنان میں موجود امریکیوں کو یہ ملک چھوڑ دینے کا کہا ہے۔ دوسری جانب رفیق حریری بین الاقوامی ہوائی اڈے کی ویب سائٹ کے مطابق منگل کو بیروت جانے اور جانے والی 30 سے زائد بین الاقوامی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد کی وجہ سے لبنان کے ہسپتال بھر چکے ہیں جبکہ اسرائیلی شہر حیفا کے مرکزی ہسپتال نے اپنی سروسز کو زیر زمین منتقل کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے ترجمان میتھیو سالٹ مارش نے کہا ہے، ''ہم دسیوں ہزار (لبنان میں) بے گھر ہونے والوں کو دیکھ رہے ہیں۔ خطرہ ہے کہ ان اعداد و شمار میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔‘‘
بین الاقوامی برادری کی تشویش
اس تنازعے کے بگڑتے ہی سفارت کاری کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے تمام ریاستوں اور اثر و رسوخ رکھنے والے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ لبنان میں مزید کشیدگی کو روکیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے، ''مجھے یقین ہے کہ ہم اب بھی اسرائیل اور لبنان کے درمیان کشیدگی میں کمی لانے اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں، ایسا سفارتی حل نکال سکتے ہیں، جس سے لوگ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔‘‘
روس نے کہا کہ لبنان پر اسرائیلی حملے تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ کو مکمل طور پر غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ اس لڑائی نے ایسے خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ اسرائیل کا قریبی اتحادی امریکہ اور علاقائی طاقت ایران کے ساتھ ساتھ یمن کے حوثی باغی اور عراق میں مسلح گروہ ایک وسیع جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اسی دوران ایرانی صدر مسعود پیزیشکیان نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اقوام متحدہ کی اسرائیل کے خلاف ''بے عملی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ''احمقانہ اور ناقابل فہم‘‘ قرار دیا ہے۔
ترکی نے لبنان پر اسرائیل کے حملوں کو ''خطے کو افراتفری میں گھسیٹنے کی کوششوں‘‘ کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترکی نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی اقدامات اور اس کی حمایت ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے منگل کے روز عالمی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ لبنان جنگ کے ''دہانے‘‘ پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا، ''لبنان کے ایک دوسرے غزہ میں تبدیل ہو جانے کے امکان‘‘ سے بھی خبردار کیا ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن فرانس نے مشرق وسطیٰ کے بحران پر ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
دوسری جانب جیسے جیسے لبنان میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، توجہ غزہ کی صورتحال سے ہٹ رہی ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزیپ بوریل نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے، ''ہم تقریباً ایک مکمل جنگ میں ہیں۔‘‘
ا ا / ع ت، ا ا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)