1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ لیبیا میں بھی ’کامیابی‘ کے لیے کوشاں

افسر اعوان13 نومبر 2015

یہ حملہ شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے حملوں جیسا ہی تھا۔ کلاشنکوفوں سے مسلح اور خودکش جیکٹیں پہنے مسلح عسکریت پسندوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے صبح سے کچھ پہلے طرابلس کی ایک جیل پر حملہ کیا۔

https://p.dw.com/p/1H59m
تصویر: picture-alliance/dpa/Str

ایک دیوار کو تباہ کرنے کے بعد چار جنگجوؤں نے جیل کے سخت حفاظتی کمپاؤنڈ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ جھڑپ شروع ہو گئی۔ دو حملہ آوروں نے جن میں سے ایک مراکشی اور دوسرا سوڈانی تھا، اپنی دھماکا خیز جیکٹوں کو اڑا دیا۔ بعد ازاں بقیہ دونوں نے بھی یہی عمل کیا اور تمام چاروں حملہ آور ہلاک ہوگئے۔

جیل توڑنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ لیکن یہ لیبیا میں اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے استعمال کی جانے والی چالوں کا ایک اور مظاہرہ تھا، جو عراق اور شام کی طرح اس بحران زدہ ملک میں بھی اپنی کامیابی کے لیے کوشاں ہے۔

’’جب ہم انہیں لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، یہ بہت تربیت یافتہ ہیں۔ حملہ آور صرف چار تھے مگر انہوں نے پوری بیس کو ہلا کر رکھ دیا۔‘‘ یہ کہنا تھا معاذ خلیل کا جو طرابلس کی میدیگا بیس پر تعینات فورسز کے ترجمان ہیں۔ ’’اس اڈے پر حملے کا کس نے سوچا ہو گا، مگر انہوں نے کر دیا۔‘‘

لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کو چار برس بیت جانے کے باوجود لیبیا ابھی تک تنازعات کا شکار ہے اور ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت ملک کے مشرق میں جبکہ خود ساختہ حکومت طرابلس میں موجود ہے، جسے بہت سے مسلح گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

عراق اور شام کے جنگی میدانوں سے بہت دور اسلامک اسٹیٹ لیبیا کی افراتفری میں مسلسل پھیل رہی ہے اور ایک اہم شہر سرت کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ لیبیا کے حالات کے باعث یہ شدت پسند گروپ مزید طاقتور ہو سکتا ہے۔

یہ گروپ لیبیا کے ایک ساحل پر مسیحی مصریوں کو نشانہ بنا چکا ہے، سرت میں جرائم پیشہ افراد کو عوام کے سامنے کوڑے لگا چکا ہے، لیبیا کے تیل کے کنووں پر حملہ کر چکا ہے اور طرابلس کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کو بھی نشانہ بنا چکا ہے۔

یہ گروپ لیبیا کے ایک ساحل پر مسیحی مصریوں کو نشانہ بنا چکا ہے
یہ گروپ لیبیا کے ایک ساحل پر مسیحی مصریوں کو نشانہ بنا چکا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

لیبیا میں پھیلی افراتفری ویسے تو کسی شدت پسند گروپ کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتی ہے لیکن اسلامک اسٹیٹ کئی دیگر بہت زیادہ مسلح گروپوں کے ساتھ بھی لڑائی کر چکی ہے جن میں ایسے مسلم شدت پسند گروپ بھی شامل ہیں جو ملک کے مختلف حصوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کا سرت پر تو قبضہ ہے مگر اس کے عسکریت پسندوں کو ایک اور شہر درنا سے مقامی جنگجوؤں نے نکال باہر کیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ اس ملک میں عراق کے برعکس آسانی سے اپنے قدم جمانے اور تیل کی دولت سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

ایک مغربی سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’وہ واضح طور پر سرت سے باہر نکل کر دیگر علاقوں کا کنٹرول بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کبھی کبھار اپنے مضبوط مرکز سے نکل کر کارروائیاں بھی کرتے ہیں مگر یہ گروپ ابھی بہت چھوٹا ہے۔‘‘