اسلام آباد: سہمے عوام مزید خوف میں مبتلا
22 اکتوبر 2009وفاقی دارالحکومت کے داخلی و خارجی راستوں کےعلاوہ اندرون شہر رینجرز اور پولیس کے درجنوں ناکوں کے باوجود حملہ آوروں کا جائے وقوعہ سے بآسانی فرار لوگوں کی حفاظت کے حکومتی دعوﺅں اورسیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سیکورٹی کی اسی ناقص صورتحال کے سبب تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد اب شہریوں نے بازاروں اور تفریحی مقامات کا رخ کرنا بھی کم کر دیا ہے۔
ایسی ہی ایک شہری مسز کاشف ممتاز جو امور خانہ داری نبھانے کے علاوہ ایک ورکنگ ویمن بھی ہیں کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کی فضاءنے عام لوگوں کا طرز زندگی بدل ڈالا ہے: ” بچے پہلی دفعہ سکول نہ جانے کی وجہ سے پریشان ہیں، اچانک چھٹیوں کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہیں حالانکہ عام طور پر وہ خوش ہوتے تھے، اس کے علاوہ مارکیٹیں اور بازار جلدی بند ہو جاتے ہیں، رات کو بازاروں میں عجیب سا ماحول پیدا ہوا ہوتا ہے۔“
گزشتہ دس سالوں سے ایک سرکاری ادارے میں بطور سیکشن آفیسر کام کرنے والے امان اللہ چوہدری نے موجودہ حالات میں اپنی ذہنی کیفیت کا حال کچھ یوں بیان کیا: ” گھر سے صبح نکلتے ہیں جو جگہ جگہ ناکوں کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ خوف چھا جاتا ہے، اور پھر کوئی اطلاع مل جاتی ہے کہ دہشتگردی یا ٹارگٹ کلنگ یا کوئی بم دھماکہ ہو گیا ہے تو بچوں کی وجہ سے کافی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور بچوں کو والدین جو باہر گئے ہوتے ہیں ان کے بارے میں پریشانی ہوتی ہے۔ آج کل ایک خوف کی فضاءہے جس میں ہر آدمی عدم تحفظ کا شکار ہے۔“
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علم عمر خطاب اورکزئی کی ذہنی کیفیت بھی دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں۔ داﺅچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عمر اورکزئی نے کہا کہ دہشتگردی اور عدم تحفظ کی فضاءنے ان جیسے لاکھوں طلباء کے مستقبل کی راہیں مسدود کر دی ہیں: ” کرم ایجنسی سے کل میرے والدین کا فون آیا کہ اسلام آباد کے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا آپ گھر آ جائیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ بندہ پاکستان کے دارالحکومت میں رہ رہا ہے اور وہ قبائلی علاقے میں امن تلاش کر رہا ہے۔“
مبصرین کے مطابق عوام دہشتگردوں سے نمٹنے کےلئے ایک خاص حد تک تو حکومت کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں البتہ دہشتگردی کی اس منظم تحریک کو کچلنے کےلئے کلیدی اور فیصلہ کن کردار بہر حال ریاست کے ذمہ دار اداروں کو خود ہی اداکرنا ہوگا۔
رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی