اسلام آباد کورٹ کا فیصلہ زیر بحث
14 جولائی 2022سوشل میڈیا میں اس فیصلے کے ہرجگہ چرچے ہیں جب کہ روزنامہ ڈان سمیت کئی اخبارات نے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں کے ساتھ لگایا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کل بروز بدھ اس مقدمے میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ فوج فلاحی کاموں کے علاوہ یا فلاحی مقاصد کے علاوہ کسی بھی طرح کی کمرشل سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو سکتی جب تک حکومت کی طرف سے ایسا کرنے کی واضح اجازت نہ ہو۔
اس مقدمے کا مختصر فیصلہ جنوری میں عدالت نے دیا تھا جس میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ مونال ریستوراں کو سیل کرلے مارگلہ گرین گولف کلب کو اپنے قبضے میں لے۔ عدالت نے اس 8 ہزار ایکڑ زمین پر فوج کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا تھا جو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہے۔ مارچ میں سپریم کورٹ نے مونال ریستوراں کو سیل کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
بحریہ کسی قسم کا ریئل اسٹیٹ وینچر نہ کرے، ہائیکورٹ
ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل اس تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا کہ آرمی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی بھی تجارتی یا کمرشل سرگرمی میں ملوث ہو۔ ماسوائے ایسی صورت حال میں جہاں قوانین اور آئین ان کو اجازت دیتا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ آرمی یا مسلح افواج کی کوئی بھی شاخ کسی ایسی زمین پر ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی جو وفاقی حکومت نے اس کے استعمال کے لیے مختص کی ہو۔
قانونی پیچیدگیاں
کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے طاقت ور حلقوں کے تجارتی پروجیکٹس کےلیے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' بظاہر اس فیصلے کی تشریح یہ لگتی ہے کہ مسلح افواج کاروباری اور کمرشل معاملات میں ملوث نہیں ہو سکیں گے۔ اس سے ممکنہ طور پرہاؤسنگ پروجیکٹس اور دوسرے تجارتی پروجیکٹ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘‘
لطیف آفریدی کے بقول اگر فوج شہداء اور اپنے سپاہیوں اور افسران کے لیے زمین لینا چاہے تو وہ لے سکتی ہے لیکن ان کو کمرشل بنیادوں پر بیچنا مشکل ہو جائے گا۔
فوجی افسروں کے لیے پچاس فیصد چھوٹ: پاکستان میں زیربحث
کوئی فرق نہیں پڑے گا
تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں اس فیصلے سے فوج کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اس فیصلے کو غلط طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے کچھ عناصر اس سے فوج کو بد نام کرنے کی کوشش کریں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں معطل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں اس فیصلے کو معطل ہونا چاہیے اور عدالتوں کو دفاعی اداروں کے حوالے سے فیصلے کرتے وقت تمام عوامل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ فوج ڈی ایچ اے اور دوسرے پروجیکٹس کے ذریعے سپاہیوں اور افسران کی بہت ساری ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ ملک کی معیشت اس قابل نہیں ہے کہ سرکاری خزانے سے ان کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ ان پروجیکٹس میں فوج حکومت سے کچھ نہیں لیتی بلکہ اپنے طور پر ایسے پروجیکٹس چلا کر وہ اپنے سپاہیوں، شہدا اور ریٹائرڈ افسران کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے دفاعی ادارے کو فرق نہیں پڑے گا۔ ''تاہم کچھ عناصر اس فیصلے کی آڑ میں فوج پر تنقید کریں گے اور دفاعی ادارے کو بد نام کرنے کی کوشش کریں گے۔ کچھ عناصر فوج کی مراعات اور ان کی سہولیات کو ہدف تنقید بناتے ہیں جبکہ خود اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی پینشن اور دوسرے اداروں کی پینشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کو دی جانے والی سہولیات بھی بہت زیادہ ہیں جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔‘‘