اسلام پر تنقید میں ہاتھ ہلکا رکھیں، ’قومی سلامتی خطرے میں‘
17 دسمبر 2015سڈنی سے جمعرات سترہ دسمبر کو ملکی میڈیا کے حوالے سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آسٹریلیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دیے جانے والے بیانات اور ذہنی رویوں کے بارے میں قومی بحث اب خاصی شدید ہو چکی ہے۔
اس بحث میں گزشتہ ہفتے خاص طور پر اس وقت مزید شدت آ گئی تھی، جب سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے اپنے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا، ’’ہم اسلام کے ساتھ بہت بڑے مسئلے کے بارے میں انکار پسندی کی سوچ کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
ٹونی ایبٹ کا یہ موقف امریکی سیاستدان اور ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ارب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا تھا، جس میں ٹرمپ نے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد کہا تھا کہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہونی چاہیے۔
اس تناظر میں آسٹریلیا کے قومی خفیہ ادارے آسٹریلین سکیورٹی انٹیلیجنس آرگنائزیشن ASIO کے سربراہ ڈنکن لوئس نے حکمران لبرل نیشنل اتحاد کے سرکردہ سیاستدانوں سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرتے ہوئے محتاط رویے اور نرم بیانی سے کام لیں۔
اخبار ’دی آسٹریلین‘ کے مطابق خفیہ ادارے کے سربراہ ڈنکن لوئس کے اس اقدام کی آج جمعرات کے روز ملکی خاتون وزیر خارجہ جولی بشپ نے بھی تائید کر دی۔ جولی بشپ نے سڈنی میں کہا، ’’اگر ASIO کے ڈائریکٹر جنرل کی رائے یہ ہے کہ اس موضوع پر عوامی بحث کے نتیجے میں اگر وہ سارا کام ضائع ہو سکتا ہے، جو انسداد دہشت گردی کے مقصد کے تحت اب تک ان کے ادارے نے کیا ہے، تو ظاہر ہے کہ انہیں اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار بھی کر سکیں۔‘‘
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سابق آسٹریلوی وزیر اعظم ٹونی ایبٹ شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اکثر بہت سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں، جس دوران انہوں نے اس گروہ کو ’ڈیتھ کَلٹ‘ بھی کہا تھا۔
اس کے برعکس ایبٹ کے جانشین میلکم ٹرن بل، جو ستمبر میں پارٹی کے اندر آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایبٹ کو ان کی ذمے داریوں سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے تھے، جب بھی اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو زیادہ محتاط لفظوں کے ساتھ اعتدال پسندانہ طرز اظہار کو ترجیح دیتے ہیں۔
ڈنکن لوئس کے بقول آسٹریلیا میں ملکی خفیہ ادارہ اپنی معلومات کے لیے زیادہ تر مسلم برادری کے بارے میں اس کے اندر سے ملنے والی قابل اعتماد معلومات پر انحصار کرتا ہے اور سیاستدانوں کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق بہت سخت بیانات نہ صرف ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ اس طرح خفیہ معلومات کے حصول میں اضافی مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔