افغانستان، امریکی فوج کا انخلا اور رابرٹ گیٹس
2 اگست 2010امریکی وزیر دفاع کے تازہ بیان سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ امریکی صدر کے افغانستان کے لئے مقررہ اہداف کے حصول کے سلسلے میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی سن 2011 سے آگے جا سکتی ہے۔ اوباما انتظامیہ کا خیال تھا کہ جولائی سن 2011 کے بعد عراق کی طرح افغانستان سے بھی امریکی فوج کے انخلاء کے نظام الاوقات کو حتمی شکل دی جا سکے گی۔ رابرٹ گیٹس کے بیان سے دکھائی دیتا ہے کہ یہ نظام الاوقات سردست کوئی حتمی ایشو نہیں ہے۔
جولائی کا مہینہ افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے لئے ایک خونی ماہ قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ مہینے کے دوران کل 66 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اوباما کے اعلان کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے آغاز میں اب کل بارہ مہینے رہ گئے ہیں۔ جولائی میں ہونے والی ہلاکتوں کے باوجود امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے کہ طالبان مزاحمت کاروں کے خلاف امریکی فوج کامیابی سے اپنے ٹارگٹ حاصل کر رہی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا، طالبان کے لئے یہ پیغام اہم ہے کہ امریکی فوج جولائی سن 2011 کے بعد افغانستان سے لوٹ نہیں رہی ہے۔ اس ڈیڈ لائن کا فیصلہ امریکی صدر باراک اوباما نے کیا تھا۔
گیٹس نے ان خیالات کا اظہار امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ طالبان کے راہ فرار اختیار کرنے کے سلسلے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رابرٹ گیٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایک خوش آئند صورت حال ہو سکتی ہے لیکن بارہ ماہ سے بھی زائد عرصے کے بعد امریکی فوج کا ایک بڑا حصہ افغانستان میں موجود رہے گا۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ ضرور کہنا تھا کہ جولائی سن 2011 کے بعد امریکی فوجیوں کی ایک محدود تعداد کی واپسی کا امکان بہر حال موجود ہے۔ گیٹس کا بیان نائب صدر جو بائیڈن کے سابقہ بیان کا تسلسل خیال کیا گیا ہے، جس میں بائیڈن نے کہا تھا کہ جولائی سن 2011 کے بعد تقریباً دو ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔
افغانستان میں طالبان کے خلاف جاری جنگ میں امریکی فوجیوں کی شرکت کا معاملہ امریکہ کے اندر حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے نیک نامی کا باعث ثابت نہیں ہو رہا بلکہ اس کا الٹا اثر ظاہر ہو رہا ہے اور پارٹی کے اراکین کانگریس بھی ہلاکتوں کی بڑھتی تعداد پر متفکر ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس باعث نومبر کے وسط مدتی پارلیمانی انتخابات میں صدر اوباما کی سیاسی جماعت کو ہزیمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت کے اندر پایا جانے والا عدم اعتماد بھی امریکی عوام اور اراکین کانگریس کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ یہ سوال بھی میڈیا اور عوامی حلقوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا کسی موڑ پر افغانستان میں طالبان مزاحمت کاروں کے ہاتھوں پریشان حال افغان عوام کا تعاون امریکی فوج کو حاصل ہو سکتا ہے ۔
ایک اور امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک CBS کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی اہداف بہت بڑے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ افغانستان میں مغربی جمہوری اقدار کے فروغ کا پلان رکھتے ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران اوباما نے افغان صورت حال کو پیچیدہ اور مشکل قرار دیا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی