1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: امن جرگہ ختم، بے یقینی بدستور برقرار

4 جون 2010

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منعقد ہونے والا امن جرگہ تین روز کی بات چیت کے بعد آج اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اِس کے شرکاء نے برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/NiKj
تصویر: AP

اِس جرگے کا آغاز بدھ دو جون کو سابق صدر بُرہان الدین ربانی کی قیادت میں ہوا تھا۔ آج جرگے کے تیسرے اور آخری روز منظور ہونے والی ایک قرارداد میں حکومت اور طالبان پر جنگ کے خاتمے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

اِس قرارداد میں، جس کی سفارشات پر عملدرآمد کی کابل حکومت پابند نہیں ہے، کہا گیا ہے کہ حکومت خیر سگالی کے جذبے کے طور پر گمراہ طالبان چھاپہ ماروں کو رہا کر دے۔ مزید یہ کہ طالبان کے لواحقین کا نام اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا جانا چاہئے۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا اِس نکتے کا اشارہ ملا محمد عمر کی قیادت میں سرگرمِ عمل طالبان قیادت کی جانب تھا۔

Mawlawi Qiyamuddin Kashaf Pressekonferenz Kabul Vorsitzender Friedensdschirga
جرگے کے نائب چیئرمین مولوی قیام الدین کاشفتصویر: picture alliance / dpa

کل جمعرات کو جرگے کے نائب سربراہ قیام الدین کاشَف نے بتایا تھا کہ ورکنگ کمیٹیوں نے دیگر باتوں کے علاوہ ایک ایسی وزارت کے قیام پر بات کی ہے، جو باغیوں کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے لئے رابطہ کاری کا کام سرانجام دے۔ تاہم آج کی قرارداد کا متن پڑھ کر سناتے ہوئے کاشَف نے کہا کہ یہ جرگہ ایک ایسی ’اعلیٰ امن کونسل‘ کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے، جو امن عمل کے سلسلے میں رہنما کردار ادا کرے۔

قرارداد میں طالبان کو غیر ملکی دہشت گردوں کے ساتھ روابط ختم کرنے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔ حکومت اور طالبان دونوں سے لڑائی بند کرنے اور مذاکرات کے لئے کوئی پیشگی شرائط عائد نہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں فضائی حملے بند کئے جانے اور گھر گھر غیر ضروری تلاشیاں اور بلا جواز گرفتاریاں روکے جانے کا مطالبہ بھی اس قرارداد میں شامل ہے۔

Abschluss Dschirga Afghanistan Kabul 2010
جرگے کے شرکاء ایک وقفے کے دورانتصویر: picture alliance / dpa

جرگے کے اِن فیصلوں سے افغان صدر کرزئی کی سیاسی ساکھ کو بہت زیادہ سہارا ملے گا کیونکہ اپنی حکومت میں بدعنوانی اور گزشتہ سال کے دھاندلی سے عبارت انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے باعث وہ افغان عوام میں کافی غیر مقبول ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ حکومت نے نہ صرف اِس جرگے کے شرکاء کا انتخاب خود کیا بلکہ اِس کی کارروائی بھی اُسی کی مرضی کے مطابق اور اُس کی نگرانی میں انجام پائی۔ مبصرین کے مطابق اِس جرگے کے انعقاد کے باوجود طالبان اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ مفاہمت کی منزل ابھی بہت دور نظر آتی ہے۔

طالبان نے اِس جرگے کی شدید مخالفت کی تھی اور بدھ کو اِس کے آغاز پر صدر کرزئی کی افتتاحی تقریر کے دوران ایک فدائی گروپ نے جرگے کو حملے کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی۔ تب کئی گولے داغے گئے، جن میں سے ایک تو اُس خیمے سے صرف ایک سو پچاس میٹر دور آ کر گرا، جہاں جرگہ ہو رہا تھا۔ تاہم اِس جرگے کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی ارکان نے، جن کی مجموعی تعداد بارہ ہزار تھی، اِس حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔ جرگے کے اختتام تک بھی پورے دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔

Afghanistan Angriff Friedens-Dschirga Kabul Taliban Karzai
کرزئی کا جرگے سے افتتاحی خطابتصویر: AP

اپنی افتتاحی تقریر میں کرزئی نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ کرزئی نے کہا تھا، ’ہزاروں باغی افغانستان کے دشمن نہیں بلکہ میری اور آپ کی طرح کے عام انسان ہیں۔‘ کرزئی نے کہا تھا کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ بات چیت نہیں کی جائے گی۔

کرزئی نے طالبان کے اِس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ کسی بھی طرح کے مذاکرات سے پہلے غیر ملکی دستوں کو افغانستان سے نکل جانا چاہئے۔ صدر کرزئی طالبان کے ساتھ مفاہمت کو بطور صدر اپنی اِس دوسری آئینی مدت کا اہم ترین نصب العین قرار دے چکے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک