افغانستان جنگ میں فتح یا شکست:امریکی کانگریس کے تفکرات
16 جون 2010اس کا ایک ثبوت رواں ہفتےکے دوران کانگریس کے دونوں ایوانوں کا ہنگامی اجلاس ہے۔ منگل کو امریکی سینٹ میں ایک اجلاس میں خلیج عرب سے لے کر وسطی ایشیا تک کے امریکی ملٹری آپریشنز کی سربراہی کرنے والے جنرل ’ڈیوڈ پیٹریوس‘ شامل ہوئے تاہم ان کی طبعیت کی اچانک خرابی اور اُن کے بے ہوش ہو جانے کے سبب یہ اجلاس جاری نہ رہ سکا اور اسے بدھ تک ملتوی کر دیا گیا۔ اس اجلاس کی اہمیت اس وجہ سے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ ابھی 6 ماہ پہلے ہی امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقوں میں 30 ہزار مزید امریکی فوجی بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کے غلبے والے صوبے ہلمند میں شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لئے برطانوی، افغان اور امریکی فوجیوں کے اشتراک سے ایک بڑے آپریشن کے آغاز کے بعد سے اس علاقے میں طالبان کا زور میں کمی دکھائی نہیں دے رہی۔ گزشتہ چند ماہ کے اندر افغانسان کے شورش زدہ علاقوں میں طالبان مدافعتی قوتوں کے حملوں میں جس طرح نیٹو کے فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، اس سے خود امریکی سیاسی اور عسکری حلقوں میں تشویش غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔
ہلمند میں شروع کئے گئے آپریشن سے توقع یہ کی جا رہی تھی کہ یہ نیٹو کی نئی فوجی حکمت عملی کو تقویت دے گا اور افغانستان متعینہ بین الاقوامی فوجی دستوں کی ہلمند میں کامیابی سے انہیں طالبان کے خاتمے کے لئے مزید کارروائیوں کے سلسلے میں حوصلہ افزائی ہو گی۔ خاص طور سے طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے قندھار میں موجودہ موسم گرما میں نیٹو فوجی ایک موثر آپریشن کرسکیں گے۔ تاہم گزشتہ ہفتے افغانستان متعینہ نیٹو فوج کے امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلی مک کرسٹل نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مجوزہ قندھار آپریشن سست رفتاری سے آگے بڑھے گا کیوں کہ قندھار کے مقامی باشندوں کو اس امر کا قائل کرنا آسان نظر نہیں آ رہا کہ ان کے علاقے میں نیٹو کی اس کارروائی کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور یہ ان کے مفاد میں ہے۔
گزشتہ ویک اینڈ پر جنرل مک کرسٹل افغان صدر حامد کر زئی کے ساتھ قندھار کے دورے پر گئے اور انہوں نے وہاں کے قبائلی اکابرین اور سرداروں سے التوا کے شکار نیٹو اور افغان آپریشن کے بارے میں حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔ اس آپریشن کے سست طور پر جاری رکھنے کی باز گشت نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں میں بھی سنی گئی تھی۔
دریں اثناء امریکی ماہر ارضیات کی جانب سے افغانستان میں بہت بڑے بڑے معدنی ذخائر کی دریافت سے متعلق منظر عام پر آنے والی رپورٹ کے بعد افغانستان کا مستقبل ایک بار پھر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ایک طرف تو اس خبر سے گویا افغانستان میں ’ مرے دھان پر پانی پڑ گیا‘۔
یعنی افغان عوام اور حکومت دونوں کے اندر امید کو امید کی ایک نئی کرن نظر آنے لگی کہ شاید جنگ، افلاس، غربت اور پسماندگی کا شکار یہ ملک خود اپنے قدرتی وسائل کی مدد سے اس تاریک عہد سے نکل سکے گا، تو دوسری طرف اس قسم کے شکوک و شبہات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کیا اب طالبان عناصر مزید مشتعل نہ ہوں گے اور کیا اب وہ اپنے ملک اور وہاں موجود قدرتی ذخائر پر اپنے قبضے کی کوششیں تیز تر نہ کردیں گے؟ ایسا ہوا تو افغانستان میں نیٹو فوج اور اس کے مشن کو مزید سخت اور پر تشدد مدافعت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ دسمبر میں امریکی صدر کی طرف سے پیش کردہ وہ نئی حکمت عملی بھی اب زیر غور ہے جس کے تحت اوباما نے جولائی 2011 ء تک افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ تاہم اوباما کے بقول ’ اس فیصلے کا دارمدار افغانستان کی سرزمین پر پائی جانے والی صورتحال پر ہوگا‘۔ اب یہ سرزمین اچانک سونے، چاندی اور دیگر قیمتی ذخائر اُگلنے کے قریب ہے۔ ان ذخائر کی دریافت کے ٹھییکوں کی بات بھی چل نکلی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ صورتحال کیا شکل اختیار کرتی ہے۔
رپورٹ کشور مصطفیٰ / خبر رساں ایجنسی
ادارت عابد حسین