' دفاعی فورسز اور طالبان دونوں کے ہاتھوں شہری ہلاکتیں‘
19 مئی 2020افغانستان میں یونائیٹڈ نیشنز اسسٹنس مشن UNAMA نے اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے دہشت گردانہ حملوں اور ظلم اور بربریت میں اضافے کے دعووں پر بھی تشویش کا اظہارکیا ہے۔
گزشتہ ہفتے افغان دارالحکومت کابل میں زچگی کے ایک ہسپتال میں ہونے والے بہیمانہ حملے کی ذمہ داری گرچہ کسی گروپ نے قبول نہیں کی تھی تاہم امریکا نے اُس پر کہا تھا کہ اس حملے سے ایسے واضح نشانات ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے افغانستان کے آئی ایس گروپ سے منسلک اُس تنظیم کا ہاتھ ہے جو ماضی میں کابل کے ایک رہائشی علاقے میں مسلم اقلیتی آبادی یعنی شیعہ برادری کو مسلسل اپنا ہدف بناتی رہی ہے۔ طالبان نے زچگی ہسپتال پر ہونے والے اُس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا، اس حملے میں دو شیر خوار بچوں سمیت 24 افراد جن میں کچھ نئی نئی ماں بننے والی خوایتن بھی شامل تھیں، لقمہ اجل بن گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ
عالمی ادارے کی رپورٹ میں طالبان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُس نے اپریل کے ماہ میں 208 شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ اسی مہینے کے دوران افغانستان کی قومی سلامتی اور دفاعی فورسز کے ہاتھوں بھی 172 شہری مارے گئے۔ اقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان (یوناما) کی سربراہ اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ڈیبرا لیون نے کہا،'' پارٹیوں نے پرامن حل تلاش کرنے کا عہد کیا ہے اب انہیں افغان لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور ان کی جنگ کے خاتمے کی اُمیدوں کو برباد نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ''افغانستان میں امن مذاکرات جلد از جلد شروع ہونا چاہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کا تشدد کے خاتمے کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کر دیا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک بیان کے مطابق خلیل زاد طالبان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ کابل کی نئی مصالحتی سیاسی قیادت کے ساتھ بات چیت شروع کریں اور تشدد میں فوری کمی لائیں۔ خلیل زاد، جو اس امریکی طالبان امن معاہدے کے معمار ہیں جس پر فروری میں دستخط ہوئے تھے اب معاہدے کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اورطالبان اور انٹرا افغان مذاکرات کو شروع کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ طالبان اور افغانستان کی سیاسی قیادت کے درمیان مذاکرات عمل میں آئیں۔ اتوار کے روز افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے مابین شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد زلمے خلیل زاد کابل سے دوحہ کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ اس معاہدے سے امریکی - طالبان امن معاہدہ کے اگلے راؤنڈ کے شروع ہونے کی توقعات بڑھ گئیں۔ یہ ایک مشکل مرحلے ہے جس کے لیے طالبان اور افغان سیاسی لیڈروں کے مابین مذاکرات ہونا ضروری ہے۔
طالبان کا موقف
طالبان نے کہا ہے کہ مستقل طور پر فائر بندی کا موضوع ایجنڈے میں سر فہرست ہو سکتا ہے تاہم وہ اس امر پر سخت تنقید کر رہے ہیں کہ بات چیت شروع کرنے کی جو بنیادی شرط ہے یعنی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ وہ بار بار تاخیر کا شکار ہوتا رہا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے عمل میں آنے کے بعد ہی بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔
دوحہ میں خلیل زاد طالبان نمائندوں سے ملاقات کریں گے اور امریکا طالبان معاہدے پر عمل درآمد کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ وہ انٹرا افغان مذاکرات شروع کرنے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں ان پر زور دینا چاہتے ہیں۔ ان میں تشدد میں نمایاں کمی بھی شامل ہے۔
مارچ کے ماہ میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے افغانستان کے دورے کے بعد خلیل زاد کا کابل کا یہ پہلا دورہ تھا۔ یاد رہے کہ پومپیو مارچ کے ماہ میں اچانک دورے پر افغانستان پہنچے تھے اور وہاں کسی امن معاہدے کے طے نہ پانے کے سبب خاصے مایوس تھے اور انہوں نے افغانستان کے لیے امریکی امداد میں ایک بلین ڈالر کی کٹوتی کا اعلان بھی کیا تھا۔
ک م / ع ح / ایجنسیز