افغانستان سے فوجی انخلا ’ایک غلطی‘ ہے، جارج ڈبلیو بُش
14 جولائی 2021امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''افغان خواتین اور لڑکیوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچے گا۔ یہ ایک غلطی ہے۔۔۔۔ وہ صرف سفاک لوگوں کے ہاتھوں ذبح ہونے کے لیے پیچھے رہ جائیں گی اور اس سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ جارج ڈبلیو بُش کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب افغان طالبان بغیر کسی بڑی مزاحمت کے بہت سے اہم علاقوں اور سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جارج ڈبلیو بُش کا جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے بارے میں کہنا تھا، ''میرا خیال ہے کہ وہ بھی اُن ہی کی طرح سوچ‘‘ رہی ہوں گی۔
بیس سالہ جنگ کا خاتمہ
امریکی اور نیٹو فورسز نے رواں سال مئی میں افغانستان سے انخلاء شروع کر دیا تھا۔ امریکی فوج کا کہنا ہےکہ افغانستان سے ان کا انخلا نوے فیصد سے زائد مکمل ہو چکا ہے۔ اس وقت سیاسی کے ساتھ ساتھ فوجی انتظامات بھی افغان حکومت کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ افغان حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات بھی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان کا افغان علاقوں پر قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔
جارج ڈبلیو بُش کے برعکس چند روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کا مقصد افغانستان کی تعمیر نو نہیں بلکہ القاعدہ کے خطرے کو کم کرنا تھا تاکہ مستقبل میں دہشت گردی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افغان شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتے تھے۔
افغانستان کی تقریبا بیس سالہ جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا افغانستان کی نہ ختم ہونے والی جنگ سے اُکتا چکا ہے اور اسے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ جنگ کے میدان میں طالبان سے نہیں جیت سکتا۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران افغان حکومت کی کارکردگی اور سیاسی لیڈروں کی بدعنوانیاں بھی افغانستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔
ا ا / ع ح (ڈی ڈبلیو)