1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: طالبان اقتدار کا ہنگامہ خیز ایک برس

15 اگست 2022

طالبان کے افغانستان میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے ایک سال مکمل ہونے پرآج پیر15 اگست کو قومی چھٹی ہے۔ ہنگامہ خیز پہلے سال کے دوران خواتین کے حقوق کو کچل دیا گیا جبکہ انسانی بحران کی صورت حال مزید ابتر ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/4FWqh
Afghanistan | Frauenrechte | Proteste in Afghanistan
تصویر: Wakil Kohsar/AFP

آج سے ٹھیک ایک برس قبل سخت گیر اسلام پسندوں نے ملک بھر میں حکومتی فورسز کے خلاف برق رفتار کارروائی کر کے کابل پر قبضہ کرلیا تھا، جس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکی قیادت میں 20 سالہ غیر ملکی فوجی مداخلت کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا۔

گزشتہ برس 15 اگست کو اس وقت کے صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے چند گھنٹے بعد کابل میں داخل ہونے والے ایک عسکریت پسند نعمت اللہ حکمت کا کہنا ہے،"ہم نے جہاد کی اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں اور اپنے ملک کو آزاد کرا لیا۔"

افراتفری کے ماحول میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کا سلسلہ 31  اگست تک جاری رہا جبکہ افغانستان سے نکل جانے کی کوشش میں ہوائی جہاز پر سوار ہونے کے لیے ہزاروں افراد کا ہجوم کابل ہوائی اڈے پر جمع ہوگیا تھا۔ ہوائی اڈے پر ہجوم کے دھاوا بول دینے، جہاز کے چھت پر چڑھ جانے اور امریکی فوجی کارگو طیاروں کے رن وے پر آگے بڑھنے کے دوران انہیں پکڑنے کے لیے دوڑتے ہوئے لوگوں کی تصویریں پوری دنیا نے دیکھیں اور یہ واقعات آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔

Afghanistan | Frauenrechte | Proteste in Afghanistan
تصویر: Wakil Kohsar/AFP

کسی سرکاری تقریب کا اعلان نہیں

گوکہ طالبان حکام نے اقتدار پر قبضہ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کسی سرکاری تقریب کے انعقاد کا ابھی تک اعلان نہیں کیا ہے تاہم سرکاری ٹیلی وژن نے بتایا کہ خصوصی پروگرام نشر کیے جائیں گے۔

حالانکہ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی 38 ملین آبادی انتہائی غربت سے دوچار ہے تاہم طالبان جنگجووں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے حوالے سے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

نعمت اللہ حکمت، جو اب صدارتی محل کی نگرانی کرنے والی خصوصی فورسز کے ایک رکن ہیں، کہتے ہیں، "جب ہم کابل میں داخل ہوئے اور جب امریکی یہاں سے نکل گئے، وہ ہمارے لیے خوشی کے سب سے بہترین لمحات تھے۔"

تاہم عام افغان شہری اور بالخصوص خواتین کو طالبان کی واپسی کے بعد زیادہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ طالبان نے ابتدا میں سخت ترین اسلامی قوانین میں نرمی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ خواتین پر نئی نئی پابندیاں عائد ہوتی رہیں اور اب وہ طالبان کے اسلام کے سخت ترین ورژن پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہیں۔

ہزاروں لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول چھوڑ دینے پڑے جبکہ خواتین کو بہت ساری سرکاری ملازمتوں میں واپس لوٹنے سے روک دیا گیا۔

مئی میں طالبان حکومت نے عورتوں کو پورا چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا۔

کابل کی ایک رہائشی اوغائی عامل کہتی ہیں، "جس دن سے وہ یہاں آئے ہیں زندگی کی خوبصورتی ختم ہوگئی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "ہم سے ہر چیز چھین لی گئی، حتی کہ وہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی داخل ہو گئے۔"

سنیچر کے روز طالبا ن عسکریت پسندوں نے کابل میں خواتین کی ایک ریلی کو منتشر کرنے کے لیے عورتوں کو نہ صرف مارا پیٹا بلکہ فائرنگ بھی کی۔

Doku Nahaufnahme Der Fall von Kabul
تصویر: WDR

تشدد میں کمی کا اعتراف لیکن زندگی ابتر

گوکہ افغان شہری اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ملک میں تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے تاہم انسانی بحران نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں انتہائی ابتر بنا دی ہیں۔

طالبان کے اہم مرکز قندھار میں ایک دکاندار نور محمد بتاتے ہیں، "لوگ ہماری دکانوں پر آتے ہیں اور جب ہم سے اشیاء کی انتہائی مہنگی قیمتوں کے متعلق شکایت کرتے ہیں تو ایک دکاندار کے طورپر ہمیں خود سے نفرت ہونے لگتی ہے۔"

طالبان عسکریت پسند تاہم غیر ملکی افواج پر فتح کو موجودہ اقتصادی بحران کے مقابلے زیادہ خوشی اور اطمینان کا سبب قرار دیتے ہیں۔

کابل کے ایک سرکاری پارک کی حفاظت پر مامور ایک جنگجو کا کہنا تھا، "ہم غریب ہیں، ہمیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن افغانستان میں اسلام کا پرچم اب ہمیشہ سربلند رہے گا۔"

ج ا/ ص ز (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید