افغانستان: میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کا قتل
3 مارچ 2021افغانستان میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ منگل دو مارچ کو صوبے ننگہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ایک مقامی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن کے لیے کام کرنے والی تین خواتین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
انعکاس ٹی وی کے ڈائریکٹر زالمے لطیفی کا کہنا ہے کہ دفتر سے نکلنے کے بعد ان خواتین کو دو مختلف حملوں میں قتل کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''وہ سب ہلاک ہوگئیں۔ وہ دفتر سے اپنے گھر پیدل جا رہی تھیں تبھی ان پر فائرنگ کی گئی۔''
لطیفی کا کہنا تھا کہ تینوں خواتین انعکاس ٹی کے ڈبنگ کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ نشریاتی ادارے نے متاثرہ خواتین میں سے ایک کی شناخت مرسل وحیدی کے نام سے کی ہے جبکہ دیگر دو کے نام شہناز اور سعدیہ بتائے گئے ہیں۔
انعکاس ٹی وی کے ملازمین کے مطابق متاثرہ خواتین بھارت اور ترکی کے مقبول ٹی وی ڈراموں کی دری اور پشتو زبان میں ڈبنگ کیا کرتی تھیں۔ خواتین پر یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان میں صحافیوں، سول سوسائٹی کے ورکروں، حکومتی ملازمین جیسے افراد میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے مقصد سے قاتلانہ حملوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔
حملوں کے پیچھے کون؟
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو پائی کہ اس حملے کے پیچھے کس گروپ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ کسی بھی گروپ نے فوری طور پر اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم ننگہار میں محکمہ پولیس کے سربراہ جمعہ گل ہمت نے بتایا کہ حملے کے بعد ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ حکام دوسرے مشبتہ افراد کی تلاش میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس، ''شخص نے خود حملہ کرنے کی بات بات تسلیم کر لی ہے۔'' انہوں نے کہا کہ جس شخص کو حراست میں لیا گیا ہے وہ طالبان کا رکن ہے۔
لیکن طالبان، جنہوں نے گزشتہ برس امریکا کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستحظ کیے تھے اور افغان حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں، اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
ننگہار صوبے میں شدت پسند تنظیم داعش کا بھی کافی اثر و رسوخ ہے۔ تاہم اس گروپ نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ لیکن گزشتہ برس دسمبر میں اسی ٹی وی اسٹیشن میں کام کرنے والی ایک دوسری خاتون کا جب قتل ہوا تھا تو داعش کے ایک رکن نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
صحافیوں پر حملے
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان،میڈیا میں کام کرنے والے افراد کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ فروری 2021میں جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق سن 2018 سے اس برس کے پہلے مہینے تک افغانستان میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے سلسلہ وار حملوں میں کم از کم 65 میڈیا پرو فیشنلز اور انسانی حقوق کے کارکنان ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغان میڈیا ایڈوکیسی گروپ نائی کے صدر مجیب خلوتگر نے منگل کے روز کہا، ''ہدف بنا کر صحافیوں کو قتل کرنے سے صحافی برادری میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے صحافی سیلف سنسرشپ میں مبتلا ہوں گے اور نتیجتاًمیڈیا کی سرگرمیاں ترک ہوسکتی ہیں اور یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہوسکتے ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد بہت ممکن ہے کہ خاتون صحافی ننگہار میں اپنے کام کے لیے جانے سے گریز کریں کیونکہ اب سکیورٹی کے خطرات بھی بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔
اکثر خواتین نشانہ کیوں بنتی ہیں؟
افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیم، 'انڈی پینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن' کی صدر شہناز اکبر نے خواتین کے اس قتل کو ہولناک بتایا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''اکثر و بیشتر افغان خواتین کو نشانہ بنا کر قتل کیا جا تا ہے۔ اسے قطعی طور پر روکنا ہوگا۔ عام شہریوں کو قتل کرنا اور افغانستان کا مستقبل برباد کرنا بند کریں۔''
انعکاس کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ریڈیو اور ٹی وی چینل ایک نجی کمپنی کی ملکیت ہے۔ اس پر خبریں، مختلف سیاسی، اسلامی تعلیمی اور مزاحیہ پرگرام نشر کیے جانے کے ساتھ ساتھ دلچسپ ٹی وی ڈراموں کو بھی افغانستان کی مختلف زبانوں میں ڈب کیا جاتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)