1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغانستان بدترین بھوک کے بحران سے دوچار: قصوروار کون؟

6 اگست 2022

افغانستان میں دس لاکھ سے زائد بچے غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں اور نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ اس صورتحال کی جزوی ذمہ دار اس ملک پر لگنے والی پابندیاں بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4FD6Q
Afghanistan | Bäckerei in Kabul spendet Brot
تصویر: Ali Khara/REUTERS

دس لاکھ سے زائد کم سن بچے ہندو کش کی ریاست افغانستان میں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس ملک کی نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ طالبان کے خلاف پابندیوں نے افغانستان کو ایک انسانی المیے سے دوچار کر دیا ہے۔

صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ گزشتہ برس کے ڈبلیو ایف پی 'ورلڈ فوڈ پروگرام‘ کے سربراہ ڈیویڈ بیسلی نے افغانتستان کو '' دوزخ بروئے زمین‘‘ قرار دیا تھا۔

یہ حقیقت اپنی جگہ کہ 2021 ء اگست میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد شاید ہی کوئی بمباری، فائرنگ، یا لڑائی ہوئی ہو لیکن ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ چُکی ہے۔

برسلز میں قائم ایک تھنک ٹینک' انٹرنیشنل کرائسز گروپ‘ نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا،'' گزشتہ دو دہائیوں میں بموں اور گولیوں سے جتنے افغان باشندے ہلاک ہوئے اُس سے کہیں زیادہ کے اب ملک میں پائی جانے والی  بھوک اور بدحالی سے ہلاک ہو نے کا امکان پیدا ہو چُکا ہے۔‘‘

گزشتہ موسم سرما کے بعد سے کچھ بھی بہتر نہیں ہوا ہے۔ امدادی تنظیم سیو دی چلڈرن کی افغانستان کے لیے ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر نورا حسنین نے ڈی ڈبلیو کو اُن ''مایوس خاندانوں‘‘ کے بارے میں بتایا جنہیں تیزی سے''انتہائی اور نقصان دہ حکمت عملی‘‘ کا سہارا لینا پڑتا رہا ہے۔

افغانستان لاکھوں بچے شدید غذائی قلت کا شکار

اس کا مطلب کیا ہوا؟ حسنین کہتی ہیں، ''اس میں اپنے بچوں کو بیچنے جیسا عمل بھی شامل ہے، اور دوسری چیزیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں کرتے۔‘‘

Afghanistan | Bäckerei in Kabul spendet Brot
کابل کا منظرتصویر: Ali Khara/REUTERS

افراتفری کےعالم میں 'پابندیاں‘

طالبان امن مذاکرات میں امریکیوں کے حقیقی شراکت دار تھے، جو بہت تیزی سے انخلاء سے متعلق مذاکرات کی شکل اختیار کر گئے لیکن انہوں نے جو حکومت بنائی  وہ بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ تھی اور اُسے الگ تھلگ کر دیا گیا۔

نتیجتا کابل کی طرف پیسے کے بہاؤ رُک گیا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ 'مسلم دہشت گردوں‘ کے خلاف  پابندی بھی لگا دی گئی۔ اب یہ پابندیاں طالبان کی قیادت والی حکومت اور پورے ملک پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

پابندیاں دو طرح کی ہیں۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے ایک تو انفرادی طور پر مختلف شخصیات پر پابندی عائد کی جس میں بقول جرمن وزارت خارجہ ' ڈی فیکٹو گورنمنٹ‘ یعنی حکومت کے اراکین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے  یکطرفہ طور پر طالبان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جنہیں واشنگٹن نے 1999ء سے ''خصوصی طور نامزد کردہ عالمی دہشت گرد تنظیم‘‘ (SDGT) کے طور پر درج کر رکھا ہے۔ 

جرمن شہر بون کے انٹرنیشنل سینٹر فور کونفلکٹ اسٹیڈیز BICC سے منسلک ایک ماہر کونراڈ شیٹر کا طالبان پر مذکورہ پابندیوں کے بارے میں کہنا ہے، '' انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کے سوا تمام اقتصادی امکانات منقطع ہو گئے، ملک کے تمام تر ترقیاتی منصوبے معطل کر دیے گئے۔‘‘ شیٹر کا مزید کہنا تھا، '' افغانستان کو اقتصادی اور مالیاتی منڈیوں سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا ہے۔‘‘

تنازعات کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے شیٹر کہتے ہیں، ''افغان باشندوں کو دوبارہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار معاشی صورتحال کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے۔‘‘

Afghanistan I Auswirkungen von Hunger und Armut auf vertriebene Familien
افغان باشندوں کی بقا داؤ پر تصویر: Sayed Khodaiberdi Sadat/AA/picture alliance

غیر ملکی کرنسی کے بغیر مرکزی بینک

امریکی انتظامیہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے تقریباً سات بلین یورو کے بیلنس کو منجمد کرنے اور گیارہ ستمبر 2001ء  کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے لیے ممکنہ معاوضے کے لیے اس کی نصف رقم مختص کرنے کے فیصلے نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔

اس بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ، ایلینا ڈوہان کہتی ہیں، ''بین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر سے، مرکزی بینک کی رقم کا تعلق حکومت سے نہیں، بلکہ ملک سے ہوتا ہے۔‘‘

 پابندیوں اور زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے افغانستان میں رقوم کی منتقلی تقریباً ناممکن ہے اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی کے بغیر، مرکزی بینک صرف ایک محدود حد تک افغان معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

نظریاتی طور پر انسانی امداد کے لیے خصوصی اجازت نامے موجود ہیں مگر عملی طور پر ان کا حصول بہت مشکل ہے اور اس کا اطلاق افغانستان کے لیے جرمنی امداد پر بھی ہوتا ہے۔

افغانستان کا افراتفری سے بھرا سال اور غیر مستحکم مستقبل

نوٹوں سے بھرے سوٹ کیسز

جرمن ادارے 'ورلڈ ہونگر ہلفے‘ کی ایشیا کے لیے ریجنل ڈائریکٹر الکے گوٹشالک نے ڈی ڈبلیو  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے امدادی تنظیموں کو غیر معمولی طریقہ کار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

Staatliche Verteilung von Brot an die Bevölkerung in Kabul
دس لاکھ سے زائد بچے غذا کی شدید قلت کا شکارتصویر: Reuters/O. Sobhani

انہوں نے کہا کہ رقم کی منتقلی اور دیگر اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 'حوالہ نیٹ ورک‘ کے ذریعے کارروائی کی جاتی ہوگی۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمن ادارے ''ورلڈ ہونگر ہلفے‘‘  پہلے کسی تیسرے ملک میں حوالہ نیٹ ورک کے ایجنٹ کے اکاؤنٹ میں امدادی رقوم منتقل کرتا ہے پھر متعلقہ ایجنٹ اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ رقم کابل پہنچ جائے۔ نقد شکل میں۔ '' وہاں اس نقد کو ہم خود گنتے ہیں پھر اُسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

افغان طالبان کا زلزلہ متاثرین کے لیے امداد میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ

افغانستان کی تنہائی ختم کی جائے

انٹر نیشنل کرائسس گروپ کا یہ ماننا ہے کہ افغانستان کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے یا اس کی تنہائی کو سب سے پہلے ختم کیا جانا چاہیے۔

اس تھنک ٹینک سے منسلک افغانستان امور کے ماہر گریم سمتھ نے جون کے اوائل میں کابل کے دورے کے بعد لکھا، '' اس ملک کو اس سے بھی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے،  اس کی تنہائی کو ختم کیا جانا چاہیے، ترقیاتی امداد کی حوصلہ افزائی کی جانا چاہیے اور مغربی اور علاقائی حکومتوں کو اس بات کا قائل کیا جانا چاہیے کہ اس سے معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔‘‘

ک م/ ش ح) ماتھیاس فون ہائن(