1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں جمہوری طرز کی حکومت نہیں ہوگی، طالبان

19 اگست 2021

طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جمہوری طرز کی حکومت نہیں ہوگی۔ ملک کا نظام ایک شوریٰ کونسل چلائے گی اور طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخون زادہ اس کے سپریم لیڈر ہوسکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3z9GK
Afghanistan I Lage in Kabul spitzt sich zu I 16.08.2021
تصویر: Gulabuddin Amiri/AP/picture alliance

طالبان کے ترجمان وحیدالدین ہاشمی نے بتایا کہ ابھی ایسے بہت سارے امور طے کرنے ہیں کہ طالبان کس طرح افغانستان کو چلائیں گے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ افغانستان جمہوری ملک نہیں ہوگا۔

 خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا،”یہاں کوئی جمہوری نظام نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔"  انہوں نے مزید کہا،” ہمیں اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں کس طرح کا سیاسی نظام نافذ ہوگا کیونکہ یہ پہلے سے ہی واضح ہے۔ یہا ں شرعی قانون نافذ ہوں گے اور بس۔“

 طالبان کی اعلی قیادت سے قریبی تعلقات رکھنے والے ہاشمی نے بتایا کہ وہ اسی ہفتے طالبان قیادت کی ایک میٹنگ میں شامل ہونے والے ہیں جس میں گورننس کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔"

Mullah Haibatullah Akhundzada
 ہیبت اللہ اخون زادہتصویر: Social Media/REUTERS

 ہیبت اللہ اخون زادہ سپریم لیڈر ہوں گے

افغانستان پر کنٹرول کرلینے والے طالبان کے ترجمان وحیدا للہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ اسلام پسند جنگجو تحریک کے رہنما ہیبت اللہ اخون زادہ کے ہاتھوں میں ہی حکومت کی کمان رہے گی اور وہ نئی حکومت میں سپریم لیڈر ہو سکتے ہیں۔

وحیداللہ ہاشمی نے آئندہ حکومت میں اقتدار کے ڈھانچے کا ایک خاکہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہت کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ سن 1996سے سن 2001 کے درمیان افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران تھا۔ سپریم لیڈر ملا عمر بالعموم پس پردہ رہتے تھے اور کاروبار مملکت کے حوالے سے فیصلہ کونسل کرتی تھی۔

ہاشمی نے مزید کہا کہ اخون زادہ کونسل کے سربراہ سے اوپر ہوں گے اور کونسل کا سربراہ ملک کے صدر کے مساوی ہوگا۔ انہوں نے کہا،”ہوسکتا ہے اخون زادہ کے نائب کو صدر کے عہدے پر فائز کیا جائے۔"

اس وقت طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخون زادہ کے تین نائبین ہیں۔ ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب، حقانی نیٹ ورک کے طاقت ور رہنما سراج الدین حقانی اور دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ عبدالغنی برادر، جو اس گروپ کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔

US-Militär schickt 3000 zusätzliche Soldaten zum Flughafen Kabul
طالبان نے ایک نئی قومی فورس تشکیل دینے کامنصوبہ بنایا ہے اس میں سرکاری فوجیوں کو بھی شامل کیا جائے گا تصویر: AFP

سابق پائلٹوں کو واپس لانے کی کوشش

طالبان کے ترجمان وحیداللہ ہاشمی نے بتایا کہ طالبان نے افغان مسلح افواج کے سابق پائلٹوں اور فوجیوں کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔

ہاشمی نے کہا کہ طالبان کو بالخصوص پائلٹوں کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی پائلٹ نہیں ہے۔ حالانکہ انہوں نے افغانستان پر قبضے کے دوران بہت سے ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کو مختلف ہوائی اڈوں پر اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا،”ہم نے بہت سے پائلٹوں سے رابطہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ یہ ان کی حکومت ہے۔ ہم نے بہت سے پائلٹوں کو فون کیا ہے اور دیگر پائلٹوں کی تلاش کر رہے ہیں تاکہ ان سے بات کرسکیں اور انہیں اپنی ملازمت پر لوٹ آنے کے لیے مدعو کر سکیں۔"

انہوں نے کہا،”بیشتر پائلٹوں نے ترکی، جرمنی اور انگلینڈ میں تربیت حاصل کی ہے اس لیے ہم ان سے ان کے سابقہ پوزیشن پر لوٹ آنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔"

خیال رہے کہ بیس برس کی جنگ کے دوران طالبان جنگجووں کے ہاتھوں سینکڑوں فوجی مارے گئے اور حال ہی میں امریکی تربیت یافتہ افغان پائلٹوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ایسے میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان پائلٹوں کو واپس لانے میں طالبان کو کتنی کامیابی مل پاتی ہے۔

وحیداللہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ طالبان نے ایک نئی قومی فورس تشکیل دینے کامنصوبہ بنایا ہے اس میں اس کے اپنے اراکین کے علاوہ ان سرکاری فوجیوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو اس کے خواہش مند ہوں گے۔

طالبان کے ترجمان نے کہا کہ طالبان کو توقع ہے کہ وہ تمام ممالک افغانستان کے طیارے واپس لوٹا دیں گے جو ان کے یہاں اترے تھے۔ ان کا اشارہ بظاہر ان 22 فوجی طیاروں، 24ہیلی کاپٹروں اور سینکڑوں افغان فوجیوں کی جانب تھا جو گزشتہ ہفتے بھاگ کر ازبکستان چلے گئے تھے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)

افغانستان میں طالبان کی مختصر تاریخ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید