افغانستان میں دہشت گردانہ حملے، بائیڈن انتظامیہ کو تشویش
1 فروری 2021افغان پولیس کے مطابق خوشنود نبی زادہ ایک بکتر بند گاڑی میں سوار تھے کہ یہ دھماکا کابل کی ایک سڑک پراُس وقت ہوا جب ان کے گاڑی قریب سے گزر رہی تھی۔ یہ دہشت گردانہ حملہ افغانستان میں حالیہ دنوں میں شہریوں پر تسلسل سے ہونے والے حملوں میں سے تازہ ترین واقعہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق خوشنود نبی زادہ ایک مقامی نیوز ایجنسی خامہ کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔
افغانستان میں چھوٹے مقناطیسی بموں کے ذریعے ہلاکتیں، گاڑیوں پر چھپ کر فائرنگ اور گاڑیوں کے نیچے دھماکا خیز مواد نصب کر کے ان کو دھماکوں سے اڑا دینے کے واقعات افغان عہدیداروں، کارکنوں اور صحافیوں کے لیے سخت پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ملک میں عدم استحکام کے تسلسل کی بڑی وجہ بھی ہیں۔ افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے باوجود اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔
حملے کی مذمت
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن UNAMA (یوناما) نے آج یکم فروری کو کابل میں کیے گئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''امن عمل میں شامل ایک سینیئر اہلکار کو حملے کا نشانہ بنانا قابل افسوس واقعہ ہے اور یہ امن عمل پر حملے کے مترادف ہے۔‘‘
یہ بیان یوناما نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں دیا۔ اس بم حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی۔ افغانستان میں سرکاری اہلکار عام طور پر طالبان کو اس طرح کے حملوں کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتی اہلکار ہر طرح کی ٹارگٹ کِلنگ کی ذمہ داری طالبان عسکریت پسندوں پرڈال دیتے ہیں حبکہ سینیئر سکیورٹی حکام اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو بڑے پیمانے پر تحفظ فراہم کرنے کے عمل میں یہ ایک ایسا حربہ ہے جو عوام میں پائے جانے والے خوف و ہراس کو ہوا دے گا۔
ایک اور حملہ
افغان پولیس کے مطابق آج پیر یکم فروری کو ہی کابل میں ایک دوسرے حملے میں شہر کے ایک مغربی ضلع میں فوج کی ایک گاڑی میں نصب کردہ بم کے دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس افسر کے علاوہ ایک شہری بھی ہلاک ہو گیا۔
بائیڈن انتظامیہ اور طالبان امن ڈیل
’سیگار‘ نامی امریکی واچ ڈاگ اس بارے میں تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ افغان دارالحکومت میں ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ ان حملوں میں حکومتی اہلکاروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور صحافیوں کو ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹ امریکی صدر جو بائیڈن حال ہی میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان اور امریکی حکومت کے مابین گزشتہ برس فروری میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں طے پانے والے امن معاہدے پر از سر نو غور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020 ء کی آخری سہ ماہی میں طالبان نے پورے ملک میں اس سے پہلے کی سہ ماہی کے مقابلے میں کم حملے کیے تھے لیکن 2019 ء کی اس چوتھی سہ ماہی کے مقابلے میں افغانستان میں حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
وائٹ ہاؤس کی اطلاعات کے مطابق جو بائیڈن کے سلامتی امور کےمشیر جیک سلیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان سے کہا، ''نئی امریکی انتظامیہ گزشتہ برس فروری میں واشنگٹن اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے پینٹاگون کے سربراہ جان کربی نے کہا تھا کہ امریکا افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلاء کے بارے میں طے پانے والے معاہدے پر قائم رہے گا بشرطیکہ افغان طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے تمام روابط ختم کریں اور ملک میں تشدد کو کم سے کم سطح پر لائیں۔
ک م/ م م (روئٹرز)