افغانستان میں نیٹو فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں
28 جون 2010جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق صرف اتوار کو مختلف واقعات میں دس نیٹو فوجی ِاس جنگ زدہ ملک میں موت کا شکار ہوئے۔ اِن ہلاک ہونے والوں میں چار فوجیوں کا تعلق ناروے، دو کا امریکہ اور ایک کا برطانیہ سے ہے، جب کہ تین فوجیوں کا تعلق نیٹو کے دیگر ممالک سے ہے۔
گزشتہ سال نیٹو کے 521 فوجی طالبان جنگجوؤں کے حملوں کا شکار ہوئے تھے جب کہ اس سال اب تک 319 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان مرنے والوں میں 190 سے زائد امریکی اور 63 برطانوی ہیں جب کہ بقیہ 60 سپاہیوں کا تعلق نیٹو سے تعلق رکھنے والے دوسرے ممالک سے ہے۔ 2001 کے امریکی حملے کے بعد سے لے کر اب تک افغانستان میں مارے جانے والے نیٹو فوجیوں کی تعداد 1883 تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں 1139 امریکی اور 308 برطانوی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی طرف سے سڑکوں کے کنارے بم نصب کرنے کی وارداتیں ان بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ گزشتہ سال کے پہلے چار مہینوں کے مقابلے میں، اس سال سڑکوں کے کنارے بم نصب کرنے کے واقعات میں 94 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
طالبان کے خلاف مختلف عسکری آپریشن اِن بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ اِن عسکری مہمات کی وجہ سے نیٹو کے فوجیوں کو پہلے سے زیادہ اُن علاقوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے، جہاں طالبان جنگجوؤں کا اثرورسوخ ہے۔
ہلاکتوں کے اِن واقعات پر امریکی حکام پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے پیرکوخبردار کیا ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں ابھی اور بھی مشکلات آ سکتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ جنگ توقعات سے زیادہ طول بھی پکڑ سکتی ہے۔
ان ہلاکتوں کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں اب افغانستان میں جنگی حکمتِ عملی کے حوالے سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل میک کرسٹل کو برطرف کر کے ان کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا تقرر کیا ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ہلاکتیں نہ صرف ڈیوڈ پیڑیاس کے لئے ایک چیلنج ہیں بلکہ امریکہ کی افغان پالیسی کا بھی ایک کڑا امتحان ہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: امجد علی