افغانستان، نیٹو اور طالبان: 2009 کا میزانیہ
31 دسمبر 2009خدشہ ہے کہ کل سے شروع ہونے والے سال 2010 کے کم ازکم شروع کے مہینوں میں یہ سلسلہ بین الاقوامی برادری کی تمام تر سیاسی، مالی اور عسکری کوششوں کے باوجود اسی طرح جاری رہے گا۔
اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ افغانستان میں منگل اور بدھ کے روز طالبان عسکریت پسندوں کے مختلف حملوں میں کم از کم تیرہ غیر ملکی ہلاک ہو گئے۔ مشرقی افغان صوبے خوست میں ایک خود کش حملے میں بدھ کو ایک اتحادی فوجی چوکی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں امریکی خفیہ ادارے CIA کے آٹھ ایجنٹ مارے گئے۔
اسی دوران بدھ کی رات کینیڈین حکام نے بتایا کہ منگل کو کینیڈا کے پانچ شہری قندھار میں کئے گئے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے چار کینیڈین فوجی تھے اور پانچواں ایک صحافی۔
افغانستان کے حوالے سے سال رواں کا میزانیہ یہ ہے کہ وہاں طالبان انتظامیہ کے خلاف2001 میں امریکی سربراہی میں شروع کی گئی جنگ کے دوران کسی بھی سال اتنے زیادہ غیر ملکی فوجی ہلاک نہیں ہوئے جتنے 2009 میں۔ ان میں سے سب سے زیادہ تعداد امریکی اور برطانوی فوجیوں کی بنتی ہے۔
کئی مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سال کئی بار یہ بات سننے میں آئی کہ امریکہ میں باراک اوباما کے صدر اور آندرس فوگ راسموسن کے نیٹو کا نیا سیکریٹری جنرل بن جانے کے بعد افغانستان کی صورت حال میں واضح بہتری آئے گی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان سے متعلق سیاست کو شخصی رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ کہا گیا کہ نئے چہرے نئے فیصلے کر کے پرانے مسئلے حل کریں گے۔
لیکن مغربی دنیا میں افغانستان کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے والے نئے چہرے بھی پرانے مسائل کو جادو کی کسی چھڑی کے ذریعے حل نہ کر سکے۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم بین الاقوامی سیکیورٹی امور کے ادارے SWP کے سلامتی سے متعلق تحقیق کے شعبے کے سربراہ مارکوس کائم کہتے ہیں کہ چند مرکزی رہنما نئے ہیں، لیکن مسئلے ابھی تک حل نہیں ہوئے۔
سلامتی امور کے اس جرمن ماہر کے بقول اب کم ازکم یہ سمجھنا شروع کر دیا گیا ہے کہ ادارے اور ڈھانچے بھی ضروری ہوتے ہیں اور دیرینہ یا بڑے مسئلے اتنی آسانی یا جلدی سے حل نہیں ہوتے۔
افغانستان کے بارے میں اگلے برس لندن میں جو بین الاقوامی کانفرنس ہو گی، اس میں زیادہ تر صرف اس ملک میں مزید فوجی دستے بھیجنے پر بات کی گئی تو جرمنی اس کانفرنس کا بائیکاٹ بھی کر سکتا ہے۔ یہ بات جرمن وزیر خارجہ ویسٹرویلے کھل کر کہہ چکے ہیں۔
لیکن ایسا کوئی ممکنہ بائیکاٹ کتنا درست اقدام ہو گا؟ اس بارے میں جرمنی میں اپوزیشن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کے دفاعی امور کے ترجمان سیاستدان رائنر آرنولڈ کہتے ہیں کہ وہ وزیر خارجہ ویسٹرویلے کے موقف کے حامی ہیں۔ بنیادی طور پر ہر مرتبہ بات اس بارے میں نہیں ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ فوجیوں کو افغانستان بھیجا جائے۔
اس کے برعکس بنیادی توجہ اس امر پر مرکوز ہونی چاہیے کہ ’’افغانستان سے متعلق پالیسی کو وہاں کے حالات سے پوری طرح ہم آہنگ بنایا جائے اور وہ غلطیاں جو اب تک کی گئی ہیں، ان سے سبق سیکھتے ہوئے ان کا تدارک بھی کیا جائے۔‘‘
رپورٹ : مقبول ملک
ادارت : شادی خان