1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے معاملے پر بھارت شش و پنج میں مبتلا

جاوید اختر، نئی دہلی
16 اگست 2021

افغانستان پر طالبان کے قبضے پر بھارت نے اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نئی دہلی کی خارجہ پالیسی اور علاقائی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کا باعث ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3z2lP
Indien Besuch Staatschef Afghanistan
تصویر: courtesy PIB, Gov. of India

بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر آج نیویارک روانہ ہوئے ہیں۔ وہ دہشت گردی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی میٹنگ میں شرکت کریں گے جس میں افغانستان کی صورت حال اور طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی۔  تاہم خطے میں اتنا اہم واقعہ رونما ہو جانے کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے، جسے نئی دہلی کی پریشانی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

بھارت کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہیں، اس لیے ان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ بھارت ماضی میں 'اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد‘ کے بیانیہ کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کرچکا ہے کہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد بھارت میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ آیا حکومت کوان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہئیں یا نہیں۔ اس پر ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ حالانکہ چند ہفتے قبل بھارت کے ایک اعلی عہدیدار کے طالبان رہنماوں کے ساتھ دوحہ میں ملاقات کی خبریں میڈیا میں آئیں تھیں لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے خود ان کی تردید کردی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تازہ صورت حال بھارت کے لیے کافی پریشان کن ہے اور اس کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بھارت کو افغانستان کے حوالے سے دو حریف پڑوسی ممالک چین اور پاکستان کے اقدامات کو بھی مدنظررکھنا ہوگا۔ ایسے میں وہ شاید امریکی فیصلے کی تائید کرے۔

Ashraf Ghani trifft Indiens Ministerpräsident Narendra Modi in Neu-Delhi
تصویر: picture-alliance/dpa

بھارت جلد بازی نہ کرے

افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت کے سامنے تین اہم سوالات ہیں۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی تربیت یافتہ تین لاکھ سے زیادہ افغان آرمی اور پولیس فورس نے محض 60 ہزار جنگجووں کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیک دیےِ؟ یہ کہ افغان مذاکرات کے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل ہی امریکا نے آخر اپنی فوج کو بلا شر ط واپس بلا لینے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ جبکہ یہ بات تقریباً سب کو معلوم تھی کہ غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے بعد طالبان بڑی تیزی سے پیشقدمی کریں گے۔ لیکن تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون سا امر بھارت کو طالبان کے ساتھ رابطہ کرنے کی راہ میں مانع تھا اور اب وہ کیا کرسکتا ہے؟ گوتم مکھوپادھیائے کاخیال ہے کہ اب جبکہ طالبان نے افغانستان کااقتدار حاصل کرلیا ہے تو ان کے ساتھ بات چیت کرنے یا نہ کرنے کی بحث محض لفظی نوعیت کی رہ جاتی ہے۔

بھارت بھی طالبان کے ساتھ روابط استوار کرنے کا خواہاں

طالبان نے کہا ہے کہ وہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کریں گے اور مستقبل میں ایک ایسے اسلامی نظام کے لیے کام کریں گے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ حالانکہ بھارت میں ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ ماضی کے تجربات کی بنیاد پر طالبان کے وعدوں پر یقین کرنا عقلمندی نہیں ہوگی۔

سفارت کارگوتم مکھو پادھیائے کا کہنا ہے کہ بھارت کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی اور اسے انتظار کرنا چاہئے کہ طالبان عبوری دور کے دوران اور اس کے بعد کیا کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارت کی اسلامی 'امارت‘ کو جلد بازی میں تسلیم کرنے کے بجائے اپنی سکیورٹی کی ضرورتوں پر توجہ دینی چاہئے اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ عالمی برادری اور بالخصوص امریکا کا اس حوالے سے کیا ردعمل ہوتا ہے۔

بھارت نے افغانستان کی تعمیر میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے
بھارت نے افغانستان کی تعمیر میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Karim

کشمیر پر بھی اثرات پڑنے کا خدشہ

بھارت کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے اور جس کا اظہار بعض رہنماوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً کیا بھی جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا لازمی اثر کشمیر پر پڑے گا۔ ماضی میں جب طالبان کی حکمرانی تھی اس وقت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں کافی بڑھ گئی تھیں۔ آنے والے دنوں میں بھی اس کا خدشہ برقرار ہے۔

دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر اور کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ایشیا فاونڈیشن کے سربراہ گلشن سچدیو کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں بھارت خود کو افغانستان میں نسبتاً مشکلات میں پائے گا لیکن امریکا کی قربت اور اپنی بعض پالیسی فیصلوں کی خامیوں کی وجہ سے اسے اس کی قیمت تو ادا کرنی ہی پڑے گی۔

طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی کشمیر میں عسکریت پسندوں کو فروغ دے گی، ماہرین

پروفیسر سچدیو کہتے ہیں،”افغانستان کا نیا سکیورٹی اور اقتصادی ڈھانچہ گزشتہ 20 برسوں کے مقابلے میں یکسر مختلف ہوگا، اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کرنے والے چین، پاکستان، روس اور ایران یہ دیکھ کر خوش ہوں گے کہ امریکا کے اثرات مزید کم ہو گئے ہیں، چین اور پاکستان بھارت کی موجودگی کو مزید کم کرنے کی کوشش کریں گے۔"

پروفیسر سچدیو کا کہنا تھا کہ بھارتی پالیسی سازوں نے طالبان کے حوالے سے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ ”جب ہر ملک حتیٰ کہ امریکا بھی طالبان کو قانونی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھل کر بات کررہا تھا، بھارتی پالیسی ساز جھجک رہے تھے لیکن اگر اب بھارت نے بات چیت شروع بھی کی تو اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔"

افغان امن عمل کے لیے بھارت خود طالبان سے بات کر لے، پاکستانی سفیر

بھارت نے جنگ زدہ ملک افغانستان کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس نے وہاں سڑکیں، ہسپتال، ڈیم اور تجارتی انفرااسٹرکچرتعمیر کیے اور تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بعض سنجیدہ اور کچھ دلچسپ تبصرے بھی ہورہے ہیں۔ بعض صارفین نے لکھا ہے”بھارت نے یہ چیزیں افغان عوام کے لیے تیار کی تھیں اب ان کی مرضی انہیں رکھیں یا برباد کردیں۔"