افغان طالبان کا حال ان کے ماضی سے کتنا مختلف ہے؟
30 نومبر 2022اگرچہ تجزیہ کاروں کو امید نہیں تھی کہ طالبان ایک لبرل تنظیم میں تبدیل ہو جائیں گے لیکن انہیں یہ امید تھی کہ جب وہ دوسری بار افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کریں گے تو یہ گروپ ''سیاسی طور پر بالغ‘‘ ہو گیا ہوگا۔ 1996ء سے 2001 ء تک اس سخت گیر گروپ کا اقتدار میں پہلا دور ان کی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں، سرعام کوڑے مارنے اور دیگر چیزوں کے علاوہ عوامی زندگی میں خواتین کی شرکت پر پابندیوں سےعبارت تھا۔2001ء میں امریکہ کے افغانستان پر حملہ کرنے اور طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے مغرب کے لیے یہ سب سے بڑے خدشات تھے۔
اگست 2021 ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کمانڈروںنے کچھ ایسے بیانات دیے جو اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنےکے بعد ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ واپس پرانی جگہ پر پہنچ گیا ہے۔
ظالمانہ سزاؤں کی طرف واپسی
حال ہی میں طالبان کے عہدیداروں نے مبینہ طور پر ''اخلاقی جرائم‘‘ کے مرتکب پائے گئے درجنوں مردوں اور عورتوں کو کھلے عام کوڑے مارے۔ یہ سزائیں لوگر، لغمان، بامیان، غزنی اور تخار صوبوں میں دی گئیں۔ ان خواتین پر''چوری، زنا، اور گھر سے بھاگنے‘‘ کے الزامات تھے۔
طالبان رہنما ان عوامی سزاؤں کو خفیہ رکھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے تمام عہدیداروں کو ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کا حکم دے رکھا ہے۔
صوبائی حکام نے مقامی لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان سزاؤں پر عمل درآمد دیکھنے کے لیے آئیں۔ جن جگہوں پر طالبان نے لوگوں کو کوڑے مارے ان میں سے ایک مشرقی صوبہ لوگر کا دارالحکومت پل عالم تھا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں لوگ ایک سٹیڈیم میں جمع ہیں، جو طالبان کے ارکان کو تین خواتین اور نو مردوں کو مارتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
لوگر صوبے میں طالبان کے گورنر کے ترجمان نے ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''زیادہ سے زیادہ سزا ‘‘39 کوڑے اور کم سے کم 12 ہے۔
'خوفناک‘ سزائیں
افغان خواتین کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی رینا امیری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ سزائیں ''خوفناک اور ایک خطرناک علامت ہیں۔ طالبان دنیا کو یہ دکھانے کے لیے زیادہ منحرف ہو رہے ہیں کہ وہ ماضی کی پالیسیوں کو اپنا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،''اس کا انجام پہلے اچھا نہیں تھا اور یہ ایک بار پھر ملک کو خطرناک راستے پر لے جائے گا۔‘‘
طالبان کے سرعام کوڑے مارنے کے ایک عینی شاہد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہطالبانان سزاؤں کے نفاذ کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ طالبان نے دوکانداروں کو انتباہ جاری کیا کہ وہ اپنی دکانیں بند کریں اور تقریب میں شرکت کریں بصورت دیگر انہیں کوڑے مارے جائیں گے۔
عینی شاہد نے بتایا کہ طالبان نے کوڑے مارنے کے لیے ''چمڑے اور دھات سے بنا‘‘ ایک خاص چابک استعمال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں کو کوڑے مارے گئے وہ انتہائی تکلیف میں تھے اور مدد کے لیے پکار رہے تھے۔
بین الاقوامی دباؤ کی کمی
ایک سابق افغان سفارت کار اور سیاسی امور کے احمد سعیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طالبان تبدیل نہیں ہوئے ہیں اور ایک سال سے زیادہ گزرنے کے ساتھ وہ زیادہ مسائل کا شکار اور شیطانی ہو گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''طالبان کسی بھی قسم کے قواعد اور انسانی اصولوں کو قبول نہیں کرتے اور وہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے کی جانے والی درخواستوں کی پرواہ نہیں کرتے۔‘‘
طالبان نے اگست 2021 ء میں اشرف غنی کیمنتخب حکومت گرانے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سخت گیر مذہبی گروپ نے سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا لیکن ان کا اولین ہدف خواتین کے حقوق رہے ہیں۔ لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے اور ان کے دور حکومت میں خواتین کو بڑھتی ہوئی سماجی پابندیوں کا سامنا ہے۔ سعیدی کا کہنا ہے کہ مغربی اقوام کو ''اس وقت افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘‘ کیونکہ وہ طالبان کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار طارق فرہادی کا خیال ہے کہ طالبان سے تبدیلی کی توقع رکھنا فضول ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ وہی ہے جو انہوں نے پاکستان کے مدارس میں سیکھا۔ اب وہ اسے نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے طرز حکمرانی پر واپس آ کر طالبان قیادت مقامی کمانڈروں اور اہلکاروں کی اپنے نظریے سے وابستگی ظاہر کر رہی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ کی غیر موجودگی میں طالبان کی قیادت میں تبدیلی کی کوئی ترغیب نہیں ہے۔
ش ر⁄ ع ا (حسین سرات)