افغان مشن پر اٹلی میں ردعمل اور حکومتی موقف
19 ستمبر 2009اٹلی کے 58 فیصد عوام اپنے چھ فوجیوں کی حالیہ ہلاکتوں سے پہلے ہی افغانستان سے اپنی فوج کا انخلاء چاہتے تھے۔ مزید چالیس فیصد کی رائے یہ تھی کہ افغان مشن 'ایک جنگی آپریشن' کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
یہ اعدادوشمار گزشتہ ہفتے کئے گئے ایک عوامی سروےمیں سامنے آئےتھے، جس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ملکی افواج کی تعیناتی کے حوالے سے عوامی ردعمل میں اب اور بھی سختی آ سکتی ہے۔
دوسری جانب اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے افغانستان کے لئے نئی حکمت عملی پر بھی زور دیا ہے، تاکہ غیرملکی فوجی وہاں سے نکل سکیں۔ جمعہ کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اب زیادہ ذمہ داری کابل حکومت کو خود ہی اٹھانی چاہئے۔
جمعرات کے حملے کے فوری بعد ایک بیان میں برلسکونی نے غیرملکی فوجیوں کے لئے افغانستان سے نکل جانے کو بہتر قدم قرار دیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اٹلی تنہا اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا ہے، جو بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہوسکتا ہے۔ برلسکونی نے زور دیا تھا کہ وہ ایسا کوئی بھی فیصلہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہی کریں گے۔
اٹلی میں بعض حلقے رواں برس کے آخر تک اپنے فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم اطالوی وزیر دفاع اناسیو لا روسا نے کہا ہے کہ نیٹو اور اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کی حتمی تاریخ پر بات کرنا ایک غلطی ہوگی۔
دوسری جانب فرانس کے وزیر دفاع اِروے مورِن نے دورہ افغانستان کے موقع پر کہا ہے کہ وہ اطالوی عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ تاہم انہوں نے روم حکام پر زور دیا کہ فوجیوں کے انخلاء کے معاملے میں وہ جذبات سے کام نہ لیں۔
اٹلی کے ان چھ فوجیوں کے جسدخاکی آج ہفتہ کو وطن پہنچ جائیں گے جبکہ ان کی آخری رسومات پیر کو ادا کی جائیں گی۔ اس موقع پر ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد غیرملکی فوجی تعینات ہیں، جن میں سب سے زیادہ امریکی ہیں۔ دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے، جس کے بعد جرمنی کا نمبر آتا ہے جبکہ اٹلی کا نمبر چھٹا ہے۔ افغانستان میں تعینات اطالوی فوجیوں کی تعداد تین ہزار دو سو پچاس ہے۔ روم نے پانچ سو فوجی حالیہ صدارتی الیکشن کے سلسلے میں وہاں روانہ کئے تھے۔
افغانستان میں تعینات غیرملکی فوجیوں کے لئے رواں برس انتہائی خطرناک ثابت ہوا ہے اور اب تک وہاں 357 نیٹوفوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔