کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت میں پھر تکرار
8 مارچ 2023بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں خواتین کی صورت حال سے متعلق پاکستانی وزیر خارجہ کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ''بد نیتی پر مبنی ایسے جھوٹے پروپیگنڈے'' کا جواب دینا بھی مناسب نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خواتین اور امن و سلامتی پر ہونے والی ایک بحث کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ سب سے زیادہ اس خطے کی خواتین کے حقوق سلب ہوتے ہیں، جہاں بیرونی طاقتیں قابض ہوں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کیا کہا؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 'خواتین اور امن و سلامتی' کے موضوع پر اجلاس چل رہا ہے، جس سے دنیا کے بہت سے رہنماؤں نے خطاب کیا اور خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل پر بات ہوئی ہے۔
اسی اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خواتین کے حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے افغانستان کے طالبان کا ذکر کرتے ہوئے خواتین سے متعلق ان کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں بھی بیرونی طاقتیں قابض ہیں، وہاں خواتین کے حقوق سب سے زیادہ پامال کیے جاتے ہیں۔
بلاول کا کہنا تھا، ''خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سب سے زیادہ منافقت اور جرائم غیر ملکی قبضوں اور ان مقامات پر ہوتے ہیں، جہاں حق خود ارادیت کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے اور جموں و کشمیر میں ہوتی ہیں۔''
اس پس منظر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ''خواتین، امن اور سلامتی کے ایجنڈے' کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام قابض قوتوں کو جوابدہ بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا، ''خواتین، امن اور سلامتی کا ایجنڈا اس وقت تک نامکمل ہے اور نامکمل ہی رہے کا، جب تک غیر ملکی قبضے والے علاقوں میں خواتین کی حالت زار سے سختی اور موثر انداز سے حل نہیں کیا جاتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قابض افواج کو اس کے لیے جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔''
انہوں نے کہا کہ خواتین سے متعلق اس حکمت عملی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے، ''یہ ضروری ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ خطہ جموں و کشمیر سمیت غیر ملکی قبضے والے علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی نگرانی کا ایک نظام قائم کیا جائے۔''
بھارت کا رد عمل
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ان بیانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل مندوب روچیرا کمبوج نے کہا وہ ان ریمارکس کو مسترد کرتی ہیں، جو ''بے بنیاد اور سیاسی وجوہات پر مبنی ہیں۔''
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کھلی بحث سے خطاب کرتے ہوئے کمبوج نے کہا ''میرا وفد تو اس طرح کے بدنیتی پر مبنی اور جھوٹے پروپیگنڈے کو جواب دینے کے قابل بھی نہیں سمجھتا ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ آج کی 'خواتین، امن اور سلامتی' کے ایجنڈے کے مکمل نفاذ کو تیز کرنے کی بحث، ''ہماری اجتماعی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہم بحث کے موضوع کا احترام کرتے ہیں اور وقت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح، ہماری توجہ موضوع پر رہے گی۔''
چند روز قبل بھی کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں تلخ بیان بازی ہوئی تھی۔ اس وقت اسلام آباد نے کہا تھا کہ بھارتی کشمیر میں تشدد، قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاسوں میں پاکستان، ترکی اور مسلم ممالک پر مبنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا مسئلہ اٹھایا تھا اور بھارت کے حالیہ متنازعہ اقدامات کی مذمت کی تھی۔
اس اجلاس میں پاکستانی وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا تھا کہ ''انسانی حقوق کے علمبرداروں کی تکلیف دہ خاموشی نے بھارت کو، کشمیری نوجوانوں اور خواتین کو قتل کرنے، انہیں معذور کرنے، ان کا ریپ کرنے اور ان پر تشدد کرنے کا حوصلہ فراہم کیا ہے۔''
بھارتی کشمیر کی سنگین صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ اگست 2019 کے بعد سے بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے تقدس کی توہین ہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا، ''سیاسی مصلحت پسندی نے ہندوتوا حکومت کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ کشمیری عوام کی اپنے جائز حقوق کے حصول کی کوشش کو دہشت گردی بتا کر، انہیں غیر انسانی بنا کر پیش کر سکے۔''
یو این ایچ سی آر میں بھارت کی نمائندہ سیما پوجانی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''پاکستان بھارت کے ساتھ ایک جنونی کیفیت میں مبتلا ہے، جب کہ اس کی عوام اپنی زندگی، معاش اور آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ ریاست کی ترجیحات غلط ہیں۔''