اقوام متحدہ نے یمنی پورٹ کی نگرانی کا سعودی مطالبہ رد کر دیا
21 مارچ 2017اقوام متحدہ نے پیر بیس مارچ کو یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کا یہ مطالبہ رد کر دیا ہے کہ اس عالمی ادارے کو یمن کی ایک انتہائی اہم بندرگاہ الحدیدہ کو اپنی نگرانی میں لے لینا چاہیے۔ اتحاد کی جانب سے یہ اپیل ایک کشتی پر کی جانے والی فائرنگ کے بعد کی تھی۔ اس کشتی پر فائرنگ سے کم از کم بیالیس افراد ہلا ک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے یمن کے متحارب فریقین پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے لیے قائم کیے گئے انفراسٹرکچر کے حفاظت کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کا تحفظ بھی یقینی بنائے۔ ترجمان کے مطابق یہ ایسی ذمہ داریاں نہیں کہ انہیں کسی اور کے کندھے پر منتقل کر دیا جائے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے یمن پہنچائی جانے والی امداد کے حوالے سے کہا کہ اس کا تعلق کُلی طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہے۔ فرحان حق کے مطابق یہ امداد سیاسی وابستگیوں سے ماورا ہو کر فراہم کی جا رہی ہے۔ ترجمان کے مطابق دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے یہ امدادی سلسلہ ہر ممکن طریقے پر جاری رکھا جائے گا۔
الحدیدہ کی بندرگاہ یمنی ساحلی پٹی پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا کنٹرول ایران نواز حوثی ملیشیا کے پاس ہے اور یہی بات سعودی عسکری اتحاد اور یمنی صدر منصور ہادی افواج کے لیے درد سر ہے۔ الحدیدہ کی بندرگاہ پر نگاہیں جمانے سے قبل یمنی فوج نے عسکری اتحاد کے تعاون سے ایک شدید جنگ کے بعد المخا کے ساحلی شہر پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
اس وقت یمن کی پریشان حال عوام کی کئی ضروریات الحدیدہ کی بندرگاہ پر پہنچنے والے سامان سے پوری کی جماتی ہیں۔ اسی بندرگاہ پر خوراک اور پانی کی سپلائی پہنچتی ہے جو بعد ازاں عام شہریوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ستر فیصد یمنی عوام کا انحصار الحدیدہ پہنچنے والے پانی اور خوراک پر ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک یمن میں تہتر لاکھ افراد ضروریاتِ زندگی کے منتظر ہیں اور اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔
عسکری اتحاد کا موقف ہے کہ الحدیدہ پورٹ کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دینے سے یمنی شہریوں کے لیے امداد کا عمل زیادہ مناسب ہو جائے گا اور اس نگرانی سے حوثی ملیشیا کو اسمگلنگ کے ذریعے ہتھیاروں اور اسلحے کی سپلائی بھی رک جائے گی۔