القاعدہ کو شکست دینا غیر ضروری ہے!
14 نومبر 2010جنرل ڈیوڈ رچرڈز برطانیہ کے چیف آف دی ڈیفینس سٹاف ہیں۔ اس تازہ بیان سے انہوں نے 15- 2014ء تک افغانستان میں برطانیہ کے جنگی فوجی مشن کے خاتمے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ رچرڈز نے البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ اس کے بعد مزید کتنے عرصے تک ان کا ملک افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ لگ بھگ 9500 برطانوی فوجی افغانستان میں متعین ہیں۔ برطانوی شہزادہ ہیری بھی چھ ہفتوں تک اپنی فوج کے شانہ بشانہ رہا۔ اب ان کے بڑی بھائی ولیم وہاں مارے جانے والے فوجیوں کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کے لئے اتوار کو افغانستان پہنچے ہیں۔
برطانوی اخبار دی سنڈے ٹیلی گراف کو دئے گئے ایک انٹرویو میں برطانوی فوج کے سربراہ نے کہا، ’’پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس ’مذہبی عسکریت‘ کو مکمل شکست دینے کی ضرورت بھی ہے؟ میرے خیال میں یہ غیر ضروری اور ناقابل حصول ہے۔‘‘ اسی روانی میں رچرڈ نے مزید کہا ، ’کیا ہم اسے اس حد تک محدود رکھ سکتے ہیں کہ ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگیاں سلامت رہیں، تو جواب ہے کہ ہاں ہم ایسا کرسکتے ہیں۔‘
رچرڈز کا یہ بیان مغربی دُنیا کی اس سیاسی و فوجی قیادت کی ترجمانی کرتا ہے، جو افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ برطانوی فوج کے اس سربراہ نے فوری انخلاء کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسا کرنے سے قبل اس خطے کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے وہ انخلاء کے بعد بھی کابل حکومت کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھنے کے حامی ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک حالیہ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد جنگ زدہ افغانستان سے آنکھیں پھیرنا شدت پسندی کی موجودہ لہر کی ایک وجہ ہے۔
دریں اثناء موسم سرما کے آغاز سے قبل افغانستان میں پرتشدد واقعات کی ایک نئی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ اتوار کو مشرقی و جنوبی افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تین عام شہری ہلاک اور بیس زخمی ہوئے۔ رواں سال کے چھ ماہ میں 1271 شہری ایسے ہی واقعات کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ادھر سپن بولدک کے علاقے میں نیٹو کی آئی سیف فورس کے دو فوجی بھی سڑک کے کنارے نصب بم کا نشانہ بنے۔ اس طرح رواں سال افغانستان میں مارے جانے والے غیر ملکی فوجیوں کی تعداد 638 تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی