1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور طالبان کے مابین خفیہ ملاقات ’مثبت‘ رہی

30 جولائی 2018

امریکا آج کل افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ واشنگٹن حکومت طالبان سے براہ راست بات چیت کے امکانات کی تلاش میں تھی اور اس سلسلے میں اوّلین پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/32Hip
Afghanistan - Taliban Kämpfer
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی حکومت کے نمائندوں اور افغان طالبان کے مابین ہونے والی خفیہ ملاقات سے ’مثبت‘ اشارے ملے ہیں۔ اس سے قبل وال اسٹریٹ جنرل اور نیو یارک ٹائمز نے طالبان ذرائع کے توسط سے رپورٹ کی تھی کہ ایک ہفتہ قبل طالبان کے متعدد نمائندے جنوبی ایشیا کے لیے خصوصی امریکی مندوب ایلس ویلس اور دیگر امریکی سفارت کاروں سے خلیجی ریاست قطر میں ملے تھے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید نہیں کی ہے۔اس خفیہ ملاقات میں شریک افغان طالبان کے ایک نمائندے نے روئٹرز کو بتایا کہ دوحہ کے ایک ہوٹل میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران بات چیت انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی، ’’اسے امن مذاکرات قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم اسے بامقصد بات چیت کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔‘‘

 Mohammad Ashraf Ghani PK
طالبان کا اصرار تھا کہ کابل حکومت کا کوئی بھی اہلکار اس مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہو گاتصویر: Getty Images/N. Shirzada

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ افغان تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خاطر فریقین نے جلد ہی دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا ہے۔ قطر کے دارالحکومت میں طالبان کا نیم سرکاری دفتر بھی قائم ہے۔

طالبان کا اصرار تھا کہ کابل حکومت کا کوئی بھی اہلکار اس مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہو گا۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلی سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کرنے کے راستے تلاش کرنے کا کہا تھا۔

اس سے قبل واشنگٹن حکومت ہمیشہ سے یہ کہتی آئی ہے کہ طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے اور امن عمل کا آغاز لازماً افغان سربراہی میں ہی ہونا چاہیے۔