1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا نے داعش کے جنگجوؤں سے متعلق قراراد کو ویٹوکر دیا

1 ستمبر 2020

امریکہ نے داعش کے جنگجوؤں کی وطن واپسی کے سوال پر اختلافات کے سبب سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی تقدیر کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوسکتی تھی۔

https://p.dw.com/p/3hpqD
	
Nord Syrien Kinder im Camp Al-Hol Camp
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Ahmad

اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں سے متعلق جو قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اس کا مقصد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے، بحالی اور ان کو از سر نو آباد کرنا تھا۔ لیکن امریکا کو اس قرارداد سے متعلق بعض اعتراضات تھے جس کی وجہ سے اس نے اسے ویٹو کر دیا۔ امریکا کا کہنا تھا کہ قرارداد میں دولت اسلامیہ کے شدت پسند گروہ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کی وطن واپسی سے متعلق اہم پہلو کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

یہ قرارداد انڈونیشیا کی جانب سے ماہ اگست میں پیش کی گئی تھی تاہم اقوام متحدہ  میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے اس قراداد کو ناقص قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمارے سامنے انڈونیشیا کی جو قرار داد تھی، جس کے بارے میں کہا گیا کہ، اسے انسداد دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی کارروائی کو تقویت دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے، وہ تو قرارداد نہ ہونے سے بھی بد تر تھی۔''

حالانکہ 15 رکنی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کی امریکا کے علاوہ دیگر تمام 14 ارکان نے حمایت کی۔ لیکن مستقل رکن کی حیثیت سے امریکا کے پاس ویٹیو پاور ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے اس نے اسے مسترد کر دیا۔

جنگجوؤں کی وطن واپسی کا مسئلہ

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اس قرارداد میں تو داعش کے شدت پسندوں کو ان کے اپنے آبائی وطن یا پھر جہاں کے وہ شہری ہیں وہاں انہیں واپس بھیجنے کا نہ تو ذکر ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات کہی گئی ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ ایسے شدت پسندوں کے خلاف ان کی حرکتوں کے لیے مقدمہ ان کے اپنے ملک میں چلنا چاہیے اور ان کی از سر نو بحالی کا کام بھی انہیں کے وطن میں ہونا چاہیے۔

داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید

لیکن اس مسئلے پر امریکا کے اتحادی برطانیہ اور فرانس جیسے یورپی ممالک بھی امریکا کے اس موقف کے حمایت کرتے نہیں دکھائی دیے کہ عوام اس قدم کی حمایت نہیں کرے گی یا پھر ایسے شدت پسند ان کی سر زمین پر حملہ کر سکتے ہیں۔ ان ممالک کا یہ بھی کہنا ہے کہ شدت پسندی سے متعلق جو کارروائیاں شام یا عراق میں ہوئیں ان سے متعلق وہاں ثبوت یا شواہد جمع کرنا بہت مشکل کام ہے۔

البتہ اس قرارداد کے مسودے میں جنگجوؤں کی فیملی یا ان کے بچوں کو مناسب طور پر ان کے آبائی وطن بھیجنے کا ذکر تھا تاہم یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ کیس کس نوعیت کا ہے۔           

داعش کے جنگجوؤں نے عراق اور شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تاہم بعد کی لڑائی میں تمام علاقے ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور 'کردش سیریئن ڈیموکریٹک فورسز' (ایس ڈی ایف) نے داعش کے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنی حراست میں لے لیا جو اب بھی بڑی تعداد میں ان کے کیمپوں میں قید ہیں۔ ایسے بڑے کیمپوں میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جو بیشتر مشتبہ شدت پسندوں کے اہل خانہ ہیں۔

اقوام متحدہ نے حفظان صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ایسے گندے کیمپوں میں مقیم خواتین و بچوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ بھرے ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایسے کیمپوں میں مقیم  بیرونی ممالک کے شدت پسندوں اور ان کی فیملی سے متعلق مسائل کا حل جلد از جلد بہت ضروری ہے ورنہ وہیں سے پھر شدت پسندانہ کارروائیاں شروع ہو سکتی ہیں۔

امریکا کی جانب سے اس قرارداد کے ویٹیو کرنے کے بعد برطانوی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، ''ہمیں افسوس ہے کہ قرارداد منظور نہ ہوسکی۔ اس سلسلے میں بیرونی ممالک کے جنگجوؤں سے ہمیں جو خطرات لاحق ہیں انہیں کم کرنے کے لیے ہم اپنے بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔''

کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر تمام ارکان نے اس قرارداد پر ای میل کے ذریعے ووٹ ڈالے۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)       

’’اگر میرے بچے نہیں ہوتے، تو میں نے خود کشی کرلی ہوتی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں