امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کردیں
19 نومبر 2020ایران میں گزشتہ برس حکومت مخالف تحریک کے دوران، امریکا کے بقول، مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور ان کے حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کے زیر انتظام ایک فاؤنڈیشن، وزیر انٹلیجنس محمود علوی اور دیگر سینیئرعہدیداروں کے خلاف پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے نافذ کی جانے والی یہ نئی پابندیاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ایران کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ برقرار رکھنے کی مہم کے تحت تازہ ترین کارروائی ہے۔ یہ پابندیاں ایسے وقت نافذ کی گئی ہیں جب نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو اقتدار منتقل کرنے میں محض دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ حالانکہ ٹرمپ نے تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کی ہے اور وہ اس بات پر مصر ہیں کہ انہوں نے ہی انتخاب جیتا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے جن نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے ان میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرپرستی میں کام کرنے والا ایک خیراتی ادارے کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے خامنہ ای کے زیر انتظام ”بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن"کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ 10 افراد سمیت توانائی، کان کنی اور مالیاتی خدمات کے شعبوں سے وابستہ فاؤنڈیشن کے ذیلی اداروں پر بھی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔
ان پابندیوں کے تحت امریکا نے ان افراد اور اداروں کے اثاثوں کو منجمد کردیا ہے اور کسی بھی امریکی کے ان کے ساتھ تجارت کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پابندی شدہ اداروں کے ساتھ لین دین کرنے والے دیگر ملکوں اور افراد بھی امریکی پابندی کے زد میں آسکتے ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ اسٹیون نوشین نے ایک بیان میں آیت اللہ علی خامنہ ای پر الزام عاید کیا ہے کہ ”وہ اپنی ”بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن" کو اپنے اتحادیوں میں خیرات کے نام پر رقوم بانٹنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ امریکا ایران کے ان بنیادی عہدے داروں اور آمدن پیدا کرنے کے ذرائع کو ہدف بناتا رہے گا جن کی بدولت ایرانی نظام نے اپنے ہی عوام کے خلاف جبر واستبداد کو جاری رکھا ہوا ہے۔“
امریکا کا الزام ہے کہ مذکورہ فاؤنڈیشن، جو کہ ایک اقتصادی، ثقافتی اور سماجی بہبود کا ادارہ ہے، نے غیر معمولی دولت اکٹھا کر رکھی ہے اور ایرانی معیشت نیز 1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد سے ضبط کی گئی ہزاروں کمپنیاں اور اثاثے اس کے کنٹرول میں ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایرانی انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس نے محمود علوی پر نومبر2019ء میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے شرکاء کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے اپنی وزارت کو استعمال کر کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
امریکا نے جن افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں پاسداران انقلاب اسلامی کے دو افسران بھی شامل ہیں۔ ان پر گزشتہ برس حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ماہ شہر میں تقریباً 150 افراد کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ نئی پابندیوں کی وجہ سے یہ افسران اور ان کے قریبی رشتہ دار امریکا کا سفر نہیں کرسکیں گے۔
’مایوسی کی علامت‘
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ان نئی پابندیوں کے اعلان کو ٹرمپ انتظامیہ کی'مایوسی کی علامت‘ قرار دیا۔
میر یوسفی نے کہا ”یہ تازہ ترین اقدامات ایران اور اس کے عوام کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی ناکام امریکی پالیسی کا تسلسل ہیں۔ اور یہ بھی اسی طرح ناکام ثابت ہوں گی جیسا کہ دیگر اقدامات ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔“
بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن کے سربراہ پرویز فتح نے ایک ٹوئٹ میں کہا ”زوال پذیر امریکی حکومت کے اس اقدام کا فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں اور خدمات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔"
بدھ کے روز امریکا نے جن افراد کو بلیک لسٹ کیا ہے ان میں پرویز فتح بھی شامل ہیں۔ پرویز فتح نے ٹرمپ کو'ناکام اور مایوس شخص‘ قرار دیا۔
ج ا /ص ز(روئٹرز)