امریکی پولیس کو مسلم خاتون کے لباس کو آگ لگانے والے کی تلاش
14 ستمبر 2016خاتون کے کپڑوں کو آگ لگائے جانے کا واقعہ گزشتہ ہفتے مین ہیٹن کے فیفتھ ایونیو پر ملبوسات کی ایک دوکان کے سامنے پیش آیا تھا۔ پینتیس سالہ برطانوی خاتون کا کہنا ہے کہ اسے چلتے چلتے اچانک محسوس ہوا کہ اس کی آستین میں آگ لگ گئی ہے۔ نیو یارک پولیس نے اس واقعے سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی وہ صرف اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس واقعے کے پیچھے ممکنہ مذہبی منافرت کا ہاتھ ہے؟
پیر کے روز پولیس کی جانب سے سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ ہوئے اس واقعے کے مناظر کی تصاویر جاری کی گئی تھیں اور عوام سے مشتبہ شخص کی تلاش میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ نیویارک میں اسلامی تعلقات کا ایک ادارہ حادثے کا شکار ہونے والی اس خاتون سے رابطے میں ہے اور اسے قانونی مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔ کیئر نامی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ مشتبہ شخص نے مسلم مخالف جذبات کی وجہ سے خاتون پر یہ حملہ کیا۔
کیئر کی ترجمان زینب چوہدری کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا ،’’یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اس مسلم مخالف سیاسی ماحول میں مسلمان بہت غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نیویارک جیسے متنوع شہر میں بھی مسلم مخالف تعصب میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔‘‘ ان کے بقول امریکا میں آباد مسلم کمیونٹی کو اسلامو فوبیا کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل نیویارک کے علاقے کوئینز میں ایک مسجد کے امام اور ان کے نائب کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کی تحقیات بھی ابھی جاری ہیں اور تاحال یہ تصدیق نہیں کی جا سکی کہ فائرنگ کا یہ واقعہ اسلام مخالف جذبات رکھنے کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد نیو یارک کے میئر نے اعلان کیا تھا کہ مسلم مساجد اور کمیونٹی کی حفاظت کے لیے اضافی پولیس افسران تعینات کیے جائیں گے۔ نیو یارک کے پولیس حکام نے ہفتے کے روز آتشزدگی کے واقعے کا شکار ہونے والی خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔ تاہم اتنا ضرور کہا ہے کہ خاتون کا تعلق سکاٹ لینڈ میں گلاسکو سے ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے دانتوں کی ڈاکٹر ہیں۔