امریکا کا بڑھتا دباؤ، ایرانی وزیر خارجہ بھارت میں
14 مئی 2019بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ابتدائی ٹوئیٹ میں کہا، ”ہزاروں برس پر محیط تعلقات۔۔۔ وزیر خارجہ سشما سوراج اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے باہمی دلچسپی کے تمام امور پر تعمیری گفتگو کی۔ افغانستان سمیت علاقے کی ابھرتی ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔"
ایرانی وزیر خارجہ کا بھارت کا یہ دورہ ایسے وقت ہوا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے تیل درآمد کرنے کے سلسلے میں بھارت سمیت چھ ملکوں کو دی گئی محدود رعایت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اگر بھارت ایران سے تیل کی درآمد بند نہیں کرتا تو اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی کامرس سیکرٹری ولبر راس جب بھارت کے دورے پر آئے تھے تو ان کے سامنے بھی ایران سے تیل کی درآمد کا معاملہ اٹھایا گیا تھا لیکن امریکا نے کسی بھی طرح کی رعایت دینے کا اشارہ نہیں دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اگر امریکا کے خلاف جاکر ایران سے تیل خریدتا ہے تو واشنگٹن اس پر کئی طرح کی پابندیاں عائدکرسکتا ہے تاہم اس کے باوجود تہران کو امید ہے کہ موجودہ پیچیدہ صورت حال میں نئی دہلی اس کی مدد کرسکتا ہے۔ بھارت میں ایران کے سفیر علی چیغانی نے گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ بھارت تیل درآمد کرنے کے سلسلے میں اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا لیکن نئی دہلی سے ایسی امید نہیں ہے کہ وہ توانائی کے شعبہ میں تہران جیسے اہم اور بھروسہ مند شراکت دار کو نظر انداز کرے گا۔
بھارت چین کے بعد ایران سے سب سے زیادہ تیل خریدتا ہے۔ لیکن امریکا کی طرف سے عائد پابندی کے بعد بھارت کی ایران سے یومیہ تیل درآمدات 452,000 بیرل سے گھٹ کر تین لاکھ بیرل یومیہ رہ گئی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی افسر نے گزشتہ دنوں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک غیر رسمی گفتگو میں تسلیم کیا تھا کہ بھارت کے لیے امریکا کے خلاف جانا مناسب نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اس کے کئی مضمرات ہوں گے۔
بھارت اور ایرانی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کا کہنا تھا، ”بھارتی حکومت اپنی توانائی کے تحفظ اور اقتصادی سلامتی مفادات کے لیے امریکا سمیت دیگر پارٹنر ملکوں کے ساتھ مل کر تمام ممکنہ راستے تلاش کرنے کے لیے کام کرتی رہے گی۔“ رویش کمار کا مزید کہنا تھا، ”ایران کے ساتھ تیل کی خریداری بند کرنے کے تعلق سے امریکی نوٹ کو ہم نے دیکھا ہے اور ہم اس فیصلے سے پیدا ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘‘
اس صورت حال کے حوالے سے ایک معروف بھارتی تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں اسٹریٹیجک اسٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر ہرش وی پنت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ایران کے ساتھ تعلقات کو نبھانا بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے ایک مستقل مسئلہ رہا ہے اور گزشتہ کئی برسوں کے دوران تمام حکومتو ں کو واشنگٹن کے مطالبات میں توازن پیدا کرنے کے لیے ایران سے تیل کی درآمدات میں کمی کرنا پڑی ہے تاہم امریکا کے حالیہ فیصلے سے چابہار بندرگاہ پراجیکٹ پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔"
ہرش پنت کا مزید کہنا تھا، ”بھارت کو تیل درآمد کرنے کے دیگر وسائل تلاش کرنا ہوں گے لیکن دیگر ممالک ایران کی طرح بھارت کو ساٹھ دنوں کی ادھار کی مہلت، مفت انشورنس اورسستا کرایہ جیسی سہولیات نہیں دیں گے۔ گو ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکا نے بھی بھارت کو تیل درآمد کرنے میں رعایت دینے کی پیش کش کی ہے لیکن اس حوالے سے بات چیت ابھی شروع ہی ہوئی ہے۔"
ہرش پنت کا بھی خیال ہے کہ بھارت کے لیے امریکا کے مطالبے کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا، ”نئی دہلی واشنگٹن کے سخت موقف کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ گو ایران کے ساتھ بھارت کے تعلقات اہم ہیں لیکن بھارت کو ایران اور امریکا کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔“ واضح رہے کہ جیش محمد کے بانی مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے عالمی دہشت گرد قرا ردینے میں امریکا نے کھل کرمدد کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سشما سوراج اور جواد ظریف نے امریکا کی طرف سے عائد کردہ پابندی پر تفصیلی بات چیت کی۔ جواد ظریف نے ایران کے جوہری پروگرام سے جزوی طور پر باہر ہونے کے حوالے سے بھی سشما سوراج کو بریف کیا۔ انہوں نے باہمی ملاقات سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”بھارت ہمارے انتہائی اہم اقتصادی،سیاسی اور علاقائی پارٹنروں میں سے ایک ہے۔ ہم مختلف امور پر بھارت کے ساتھ مستقل صلاح و مشور ہ کرتے رہتے ہیں اور میری یہ ملاقات خطے میں ہونے والی حالیہ اہم پیش رفت اور دیگر باہمی امور پر بات چیت کے لیے ہورہی ہے۔"