1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کی جانب سے بشار الاسد کے فیصلے کا خیر مقدم

ندیم گِل7 اکتوبر 2013

امریکا نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا عمل شروع کرنے پر بشار الاشد کو سراہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ عمل جس قدر جلد شروع ہوا ہے اس کے لیے روس کی کوششیں بھی قابلِ تحسین ہیں۔

https://p.dw.com/p/19vfw
تصویر: picture-alliance/dpa

دمشق کے کیمیائی ہتھیار شام کے اپنے اہلکار تلف کر رہے ہیں جن کی نگرانی ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق بین الاقوامی ماہرین کر رہے ہیں۔ یہ عمل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد کے تحت جاری ہے۔

شام کے صدر بشار الاسد کے لیے مثبت رائے کا اظہار امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پیر کو انڈونیشیا کے علاقے نوسا دعا میں اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف سے ملاقات کے بعد کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر جان کیری نے کہا: ’’یہ عمل ریکارڈ ٹائم میں شروع ہوا ہے اور ہم روس کے تعاون اور ظاہر ہے شام کی جانب سے اس پر عمل کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ انتہائی اہم ہے کہ قرار داد منظور کیے جانے کے ایک ہفتے کے اندر کل اتوار کو کچھ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا عمل شروع ہو گیا۔‘‘

جان کیری نے کہا ہے کہ اس کے لیے اسد حکومت تعریف کی مستحق ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’یہ اچھا آغاز ہے اور ہم ایک اچھے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘

APEC John Kerry USA Sergey Lawrow
جان کیری اور سیرگئی لاوروفتصویر: Reuters

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد کے تحت شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز کو یکم نومبر تک ختم کیا جانا ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کی مکمل تلفی کے لیے آئندہ برس کے وسط تک کا وقت طے ہے۔

اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق عالمی ادارے او پی سی ڈبلیو نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ معائنہ کار شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات جانچ رہے ہیں اور ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔

دوسری جانب جرمن میگزین ڈیر اشپیگل کے ساتھ ایک انٹرویو میں شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت معائنہ کاروں کے ساتھ انتہائی شفاف طرزِ عمل اخیتار کیے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا تھا: ’’ماہرین کسی بھی جگہ جا سکتے ہیں۔ انہیں ہماری طرف سے تمام ڈیٹا دستیاب ہو گا، وہ اسے جانچیں گے اور پھر وہ ہماری صداقت کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘

بشار الاسد نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شام میں جاری طویل تنازعے میں ان کی حکومت سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ دمشق کے ایک نواحی علاقے میں 21 اگست کے کیمیائی حملے میں ان کی فورسز ملوث نہیں تھیں۔