1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا ہمیں فوجی تصادم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے،پوٹن

2 فروری 2022

روسی صدر نے مغرب پر ماسکو کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ پوٹن نے کہا کہ امریکا یوکرائن بحران کے حوالے سے روس کو فوجی تصادم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ با ت چیت کے لیے اب بھی تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/46Ogg
Russland | PK | Treffen Putin und Orban in Moskau
تصویر: Yuri Kochetkov/AP Photo/picture alliance

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کے ساتھ منگل کے روز ملاقات کے بعد ماسکو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر یوکرائن معاملے میں سکیورٹی کے حوالے سے ماسکو کے خدشات اور اہم مطالبات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ کریملن یوکرائن بحران کو حل کرنے کے لیے اب بھی مزید بات چیت کے لیے تیار ہے۔

پوٹن کا یہ بیان یوکرائن پر ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری تعطل کے حوالے سے پہلا عوامی بیان ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکا اور نیٹو نے گوکہ کریملن کے مطالبات کا جواب دیا تھا تاہم پوٹن کا کہنا ہے روس کی درخواستیں 'بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئی ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم امریکا اور نیٹو کی طرف سے موصول ہونے والے تحریری جواب کا باریکی سے تجزیہ کر رہے ہیں۔"

روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کے ساتھ ماسکو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کے ساتھ ماسکو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Kremlin Press Office /AA/picture alliance

'امریکا یوکرائن کو آلہ کے طور پر استعما ل کر رہا ہے'

ولادیمیر پوٹن نے واضح طور پر کہا کہ مغرب نے نیٹو کی جانب سے یوکرائن اور دیگر سابق سوویت ریاستوں کو اتحاد میں شامل نہ کرنے، روسی سرحدوں کے قریب ہتھیاروں کی تنصیب سے باز رہنے اور مشرقی یورپ سے فوجیں واپس بلانے جیسے روسی مطالبات کو نظر انداز کر دیا ہے۔

روسی صدر نے تاہم کہا، "مجھے امید ہے کہ ہم آخر کار کوئی حل تلاش کرلیں گے حالانکہ ہمیں احساس ہے کہ یہ آسان نہیں ہوگا۔"

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ولادیمیر پوٹن کے اس بیان سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یوکرائن پر ممکنہ روسی حملے کا مستقبل قریب میں امکان نہیں ہے اور روس سفارت کاری کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہے۔ حالانکہ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور امریکا کی جانب سے کسی مراعات کی امید بظاہر کم نظر آرہی ہے۔

ولادیمر پوتن کا کہنا تھا، "مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کو یوکرائن کی سکیورٹی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد روس کی ترقی کو روکنا ہے۔"  انہوں نے مزید کہا، "امریکا روس پر قابو پانے کی کوششوں میں یوکرائن کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔"

روسی صدر نے الزام لگایا، "واشنگٹن ہمیں فوجی تنازعے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کررہا اور وہ یورپ میں اپنے اتحادیوں کو ان سخت پابندیوں کے لیے مجبور کرسکتا ہے جن کے بارے میں امریکا دھمکیاں دے رہا ہے۔"

پوٹن نے دعویٰ کیا، "دوسرا ممکنہ متبادل یہ ہوگا کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل کیا جائے، وہاں خطرناک ہتھیاروں کی تنصیب کی جائے اور یوکرائنی  قوم پرستوں کو باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے یا کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے، ایسا کرنا ہمیں ایک فوجی تنازع کی جانب دھکیل دے گا۔"

پوتن نے کہا، "تصور کریں کہ یوکرائن نیٹو کا رکن بن جاتا ہے اور وہ فوجی آپریشن شروع کرتا ہے تو کیا پھر ہمیں نیٹو سے جنگ کرنی چاہیے؟ کیا کسی نے اس کے بارے میں سوچا ہے؟"

روسی صدر کا کہنا تھا کہ اب بھی ایسے تصفیے پر بات چیت ممکن ہے جس میں ہر فریق کے تحفظات کو مدنظر رکھا جائے۔ "ہمیں یوکرائن، یورپی ممالک اور روس سمیت تمام فریقوں کے مفادات اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔"

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے فون پر بات کی
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے فون پر بات کیتصویر: Russian Ministry of Foreign Affairs/TASS/imago images

حملے کا منصوبہ نہیں تو روس فوج واپس بلائے، امریکا

دریں اثنا منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے فون پر بات کی۔ امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بلنکن نے لاوروف سے کہا کہ اگر روس کا یوکرائن پرحملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو ماسکو کو سرحد پر تعینات اپنی فوج واپس بلا لینا چاہئے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں رہنماوں کے درمیان "پیشہ ورانہ اور صاف صاف " باتیں ہوئیں۔ انہوں نے مزید کہا، "ہمیں روس کی جانب سے مسلسل یہ یقین دہانی سن رہے ہیں کہ وہ حملے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہا ہے۔ لیکن فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ، بھاری ہتھیاروں کی تنصیب اور سرحد کے قریب پیش قدمی، سمیت اس کا ہر عمل اس کے برخلاف نظر آ رہا ہے۔"

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ بلینکن نے وزیر خارجہ لاوروف سے کہا، "اگر صدر پوٹن حقیقاً جنگ یا حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتے تو انہیں فوج اور ہتھیار واپس بلا لینے چاہئیں اور سنجیدہ گفتگو شروع کرنی چاہئے جس سے یورپ کی اجتماعی سکیورٹی میں اضافہ ہوسکے۔"

ادھر یوکرائنی صدر وولودمیر زیلنیسکی نے بھی بلینکن کی تجویز سے مماثل تجویز پیش کی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ روس ہماری سرحد سے اپنی فوج کب واپس بلاتا ہے۔ انہوں نے کہا، "روسی فوج کی واپسی ایک اہم اشارہ ہوگا اور اس سوال کا حقیقی جواب بھی کہ آیا روس فوجی کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔"

یوکرائنی صدر نے منگل کے روز ایک حکم نامے پربھی دستخط کیے جس کی رو سے ملک کی فوج میں ایک لاکھ مزید فوجیوں کی توسیع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی اگلے تین برس میں یوکرائنی فوج کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہوجائے گی۔ انہوں نے فوجیوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا بھی وعدہ کیا۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یوکرائنی صدر زیلنیسکی
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یوکرائنی صدر زیلنیسکی تصویر: Peter Nicholls/AP Photo/picture alliance

بورس جانسن کیف میں

یوکرائن کے ساتھ حمایت کے اظہار کے لیے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور پولینڈ کے وزیر اعظم ماتیوز موراوسکی یوکرائنی صدر زیلنیسکی سے ملاقات کے لیے کیف پہنچ گئے ہیں۔

جانسن نے پوتن پر یوکرائن کو دھمکانے کا الزام لگایا تاکہ وہ مغرب کو مابعد سرد جنگ یورپ کا نیا سکیورٹی نقشہ تیار کرنے کے لیے مجبور کر سکے۔

جانسن نے کیف پہنچنے پر کہا، "وہ (پوٹن) یوکرائن کے سر پر بندوق تان کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کچھ ایسا تبدیل کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جو یکسر تخیل پر مبنی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ روس سکیورٹی کو جس طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے اس سے یورپ پھر تقسیم ہوسکتا ہے۔

ج ا/ ص ز  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں