'امریکی انٹیلی جینس القاعدہ کے خلاف اور بھی کارگر'
16 ستمبر 2009انٹیلی جینس کے سربراہ ڈینس بلیئر نے یہ بیان آئندہ چار برس کے لئے انٹیلی جینس سے متعلق امریکی ترجیحات پر مبنی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی خفیہ اداروں نے القاعدہ اور اس کی معاون تنظیموں کے بارے میں جو معلومات اکٹھی کیں، ان کی بدولت تمام ملکوں کو تحفظ حاصل ہوا ہے۔ ساتھ ہی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں اور بھی جارحانہ انداز سے آگے بڑھائی جا رہی ہیں۔
ڈینس بلیئر کا کہنا تھا، یہ نکتہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اکثر پوچھے گئے اِس سوال کا جواب دیا جا سکے کہ سابق صدر جارج بش کے دَور میں اختیار کئے گئے مختلف تفتیشی طریقوں کے دوران کیا معلومات حاصل ہوئیں۔
امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے گزشتہ ماہ تفتیش کار ادارے 'سی آئی اے' کی جانب سے مبینہ دہشت گردوں سے پوچھ گچھ کے طریقے کی چھان بین کے لئے ایک خصوصی تفتیش کار مقرر کیا تھا۔ تاہم صدر باراک اوباما سی آئی اے کے اہل کاروں کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔
انٹیلی جینس سے متعلق واشنگٹن حکومت کی ترجیحات کے بارے میں یہ رپورٹ صومالیہ میں ایک امریکی حملے میں القاعدہ کے مفرور رہنما صالح علی صالح کی ہلاکت کے بعد جاری کی گئی ہے۔
امریکی افواج کو ایسی ہی ایک کامیابی گزشتہ ماہ بھی ملی، جب انہوں نے پاکستان کے ایک قبائلی علاقے میں طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا، جب محسود اپنے سسرال میں گھر کی چھت پر موجود تھا اور اس کی اہلیہ اس کی ٹانگ پر مالش کر رہی تھی۔
پاکستان میں گزشتہ برس دسمبر اور اسی سال جنوری کے دوران بھی ایسے ہی مختلف حملوں میں القاعدہ کے دو اہم رہنما مارے گئے تھے۔ ان میں لندن سے کینیڈا اور امریکہ جانے والے طیاروں میں دہشت گردی کے منصوبے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ راشد رؤف اور پاکستان میں القاعدہ کا سربراہ اُسامہ الکینی شامل ہیں۔
دوسری جانب انٹیلی جینس سے متعلق امریکی ترجیحات پر مبنی رپورٹ میں نئے ضوابط کے حوالے سے چین اور روس کو امریکہ کے بڑے چیلنجرز قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سائبر کرائمز کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد ممالک روایتی اور جدید طریقوں سے امریکہ کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی