1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی جج نے محمد بن سلمان کے خلاف خاشقجی کا کیس خارج کر دیا

7 دسمبر 2022

امریکی حکومت نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق مقدمات میں استثنی کی بات کہی تھی۔ ایک امریکی جج نے کہا کہ ان کے پاس بھی حکومت کے موقف پر تعمیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4KaBJ
Saudi-Arabien Riad | Mohammed bin Salman
تصویر: Balkis Press/ABACAPRESS/picture alliance

امریکہ میں چھ دسمبر منگل کے روز ایک جج نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی کی جانب سے سعودی عرب کے ولی عہدمحمد بن سلمان کے خلاف دائر کردہ مقدمے کو مسترد کر دیا۔

سعودی ولی عہد کے لیے استثنیٰ: جمال قاشقجی کو انصاف نہیں ملے گا

سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو سن 2018 میں ترکی میں ایک سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ امریکی خفیہ اداروں نے اپنی تفتیش کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ محمد بن سلمان نے ہی اس قتل کا حکم دیا تھا۔

بائیڈن کے سعودی ولی عہد سے ’مٹھی ملانے‘ پر میڈیا میں تنقید

لیکن گزشتہ ماہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ سعودی سلطنت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا انہیں اس طرح کے مقدموں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ  کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکہ میں قانونی چارہ جوئی سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا، اسی طرز پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی استثنٰی دیا گیا ہے۔

جج نے کیا کہا؟

واشنگٹن ڈی سی کے فیڈرل جج جان بیٹس نے کہا کہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اورایک انسانی حقوق گروپ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں ''مضبوط'' اور ''قابل ستائش'' دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس قتل کے پیچھے سعودی شہزادے کا ہی ہاتھ تھا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کے پاس امریکی حکومت کے موقف کو مسترد کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔

جج نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ہی سعودی عرب سمیت تمام خارجہ امور کی ذمہ دار ہے اور اس عدالت کی جانب سے محمد بن سلمان کو استثنیٰ دیے جانے کے خلاف کوئی بھی فیصلہ، ان ذمہ داریوں میں غیر ضروری مداخلت کا باعث بنے گا۔

Saudi-Arabien vermisster Blogger Jamal Khashoggi
اکتوبر 2018 میں سعودی ایجنٹوں نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا تھا، جہاں وہ ایک ترک شہری خدیجہ چنگیزی سے شادی کے لیے ضروری دستاویزات لینے گئے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali

محمد بن سلمان کو گزشتہ ستمبر میں سعودی عرب کا وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا اور اس حیثیت سے امریکی عدالتوں میں غیر ملکی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے سے پہلے، وہ کئی برسوں سے اپنے 86 سالہ والد شاہ سلمان کے ماتحت مملکت کے عملاً حکمران بھی رہے ہیں۔

جج بیٹس نے کہا کہ شہزادے کے خلاف ''قابل اعتماد'' الزامات، اور پھر اچانک وزارت عظمی کے عہدے پر ان کی تقرری کا وقت اور جس طرح سے امریکی حکومت نے انہیں استثنی دینے کی سفارش کی، اس نے انہیں ''بے چینی'' میں مبتلا کر دیا۔

انصاف کے لیے جدوجہد جاری

انسانی حقوق  کے گروپ 'ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ' (ڈی اے ڈبلیو این) جسے خود جمال خاشقجی نے قائم کیا تھا، نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ یہ تنظیم اس مقدمے کی ایک فریق بھی ہے۔

ڈی اے ڈبلیو این کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ لیہ وٹسن نے کہا کہ یہ مقدمہ تو، خاشقجی کے قتل کے لیے انصاف اور احتساب کی کوششوں کا ''صرف ایک حصہ'' ہے، جبکہ سعودی حکومت اپنے شہریوں کے خلاف بہت سے دیگر جرائم بھی کر رہی ہے۔

انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام کہا کہ ''انصاف کے لیے ہماری جدوجہد جاری ہے'' اور اس حوالے سے دیگر ممکنہ قانونی کارروائیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اکتوبر 2018 میں سعودی ایجنٹوں نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کر دیا تھا، جہاں وہ ایک ترک شہری خدیجہ چنگیزی سے شادی کے لیے ضروری دستاویزات لینے گئے تھے۔

سعودی عرب کے ولی عہد نے پہلے خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کی تردید کی تھی۔ تاہم گزشتہ برس میڈیا ادارے پی بی ایس کے ساتھ ایک دستاویزی فلم میں انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ قتل ''میری نگرانی میں '' ہوا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار خاشقجی سعودی حکومت اور ولی عہد کی پالیسیوں کے سخت ناقد تھے۔

ص ز / ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

خاشقجی کے بارے میں سوال پر شہزادہ سلمان کی خاموشی