امریکی صدر کے نئے ایگزیکٹو آرڈر کو عدالتی چیلنج کا سامنا
10 مارچ 2017واشنگٹن ریاست کے اٹارنی جنرل باب فرگوسن کے مطابق نیویارک کی ریاست بھی عدالتی کارروائی میں شریک ہونا چاہتی ہے۔ اوریگن اور مینیسوٹا کی ریاستوں کو واشنگٹن کے جج نے عدالت میں اپیل کا حصہ بننے کی اجازت دے دی ہے۔ اسی طرح میسا چوسٹس کے اٹارنی جنرل نے بھی ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف شروع ہونے والی عدالتی کارروائی کا حصہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ کے پہلے سفری پابندیوں کے حکم نامے کو سب سے پہلے واشنگٹن ریاست نے ہی چیلنج کیا تھا اور جج جیمز روبارٹ نے اُسے معطل کر دیا تھا۔ اس مرتبہ بھی یہی جج دائر کی گئی اپیل کی سماعت کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیر چھ مارچ کو دستخط کردہ نئے صدارتی حکم نامے میں سے عراق کا نام خارج کر دیا گیا تھا۔ نئے حکم نامے میں اب چھ مسلم اکثریتی ممالک ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ ان ممالک کے شہریوں پر اگلے 90 دن کے لیے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالا تھا۔ اس کے صرف ایک ہفتہ بعد یعنی ستائیس جنوری کو انہوں نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جن میں عراق بھی شامل تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری میں جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے بعد امریکا کے درجنوں بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر اس وقت انتہائی پریشان کن صورت حال پیدا ہو گئی تھی، جب باقاعدہ ویزا لے کر آنے والے ہزاروں غیر ملکیوں کو امریکا میں داخلے کے اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ تب امریکا کے مختلف شہروں میں صدر ٹرمپ کے خلاف مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے اس فیصلے پر شدید تنقید بھی دیکھنے میں آئی تھی۔
ابتدائی حکم نامے کے ردعمل میں امریکا کی مختلف عدالتوں میں قریب دو درجن مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ تین فروی کو ایک امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ایسے افراد کو امریکا میں داخلے کی اجازت دے دی تھی، جو ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے تھے۔
امریکی محکمہ انصاف کے اندازوں کے مطابق ابتدائی پابندی کے سبب قریب 60 ہزار افراد کو جاری کردہ ویزے معطل کر دیے گئے تھے۔