امریکی فوج میں ہم جنس پرستوں کی بھرتی، نیابل منظور
28 مئی 2010امریکی ایوان نمائندگان میں 194 کے مقابلے میں 234 ووٹوں کی اکثریت سے قانون سازوں نے اس بارے میں ایک قرار داد منظور کر لی ہے۔ ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لئے سرگرم حلقوں اور فوجی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد امریکی صدر باراک اوباما کی خواہش تھی کہ ایسا ہو۔
قرار داد کی منظوری کے بعد امریکی صدر نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ ’’اس قانون کی مدد سے ہم جنس پرست مرد اور خواتین فوج میں ایمانداری اور عزت سے فرائض انجام دے سکیں گے اور یوں ہماری افواج کی طاقت بڑھے گی۔‘‘
اس بل کو قانون بنانے کی حمایت کرنے والے حلقوں کو امید ہے کہ جلد ہی تمام مرحلے طے کرتے یہ بل امریکی صدر باراک اوباما کی میز تک پہنچ جائے گا، جو اس پر دستخط کر کے اسے قانون کی شکل دے دیں گے۔ اس آئندہ قانون پر عملدرآمد کی تاریخ کا تعین پینٹاگون یعنی محکمہء دفاع کی صوابدید پر ہوگا۔
ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹ رکن پیٹرک مرفی نے بل کے حق میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کیا امریکہ دو جنگی محاذوں پر ہوتے ہوئے بھی ساڑھے تیرہ ہزار حاضر سروس فوجیوں سے یہ کہنا برداشت کر سکتا ہے کہ ان کی خدمات اب درکار نہیں۔ ان کا اشارہ فوج میں شامل ساڑھے تیرہ ہزار ہم جنس پرستوں کی جانب تھا۔
مرفی عراقی جنگ میں حصہ لینے والے وہ واحد سابقہ فوجی ہیں جو اب ایوان نمائندگان کے رکن ہیں۔ ری پبلکن ارکان نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس سال دسمبر تک محکمہء دفاع کو ازخود اس قانون کا دوبارہ جائزہ مکمل کرنے دیا جائے۔ سابق امریکی صدارتی امیدوار سینیٹر جان میک کین کا کہنا ہے کہ اس بل کی منظوری سے فوجیوں کے مورال پر منفی اثر پڑے گا۔ خیال رہے کہ میک کین خود بھی فوجی رہ چکے ہیں۔
فوج میں جنسی رجحانات سے متعلق کلنٹن دور کی ’مت پوچھو اور مت بتاؤ‘ کی پالیسی کے مکمل خاتمے کے لئے صدر، وزیر دفاع اور فوجی قیادت کی حمایت درکار ہوگی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک