امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے آغاز پر ترکی میں
6 جنوری 2024امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے آج ہفتے کے روز ترک قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد بلنکن کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے ایک ہفتے کے طویل دورے کے آغاز پر اس خطے میں اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ شروع ہونے کے بعد سے پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے سب سے سینئر سفارت کار نے استنبول میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی، جو غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے سخت ناقد ہیں۔
اس سے قبل ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بلنکن اور ترک وزیر خارجہ ہاکان فدان نے غزہ میں جنگ کے دوران انسانی بحران اور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کے لیے ترکی کی جانب سے توثیق کے عمل پر تبادلہ خیال کیا ۔ بلنکن کے ساتھ سفر کرنے والے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ امریکی حکام ترکی کی جانب سے سویڈن کی رکنیت کی توثیق کے لیے طویل وقت لینے پر مایوس ہوئے ہیں لیکن انہیں یقین ہے کہ انقرہ جلد ہی سویڈن کے شمولیت کو منظور کر لے گا۔ ترک پارلیمنٹ نے گزشتہ ماہ ہی سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی توثیق کی تھی۔
امریکی قانون سازوں نے ترکی کو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی فروخت اس وقت تک روک رکھی ہے جب تک کہ وہ شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم (نیٹو)میں سویڈن کو شامل کرنے کی دستاویز پر دستخط نہیں کرتا۔ سویڈن نے 2022 کے اوائل میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد فن لینڈ کے ساتھ مل کر نیٹو میں شمولیت کی درخواست کی تھی۔ اگر اسی کی منظوری کا عمل مکمل ہو گیا تو وہ اس فوجی اتحاد کا 32 واں رکن بن جائے گا۔
فن لینڈ نے گزشتہ سال نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بلنکن بعد میں یونانی وزیر اعظم Kyriakos Mitsotakis سے ملاقات کے لیے یونانی جزیرے کریٹ جائیں گے۔ نیٹوکا رکن یونان امریکہ سے ایف35 لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری کا منتظر ہے۔
یونانی وزیر خارجہ جارج جیراپیٹرائٹس نے یونانی سکائی ٹیلی ویژن کو بتایا، ''ہم اس مسئلے پر بات کریں گے۔ میرے خیال میں مثبت پیش رفت ہو گی۔‘‘
آنے والے دنوں میں بلنکن کے دورے میں عرب ریاستیں، اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارہ شامل ہو گا، جہاں وہ یہ پیغام دیں گے کہ واشنگٹن غزہ کے تنازع میں علاقائی توسیع نہیں چاہتا۔ اسرائیل اور حماس کے مابین یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی، جب سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر حملہ کر کے تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 240 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک 22,700 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تنازعہ مغربی کنارے، لبنان اور بحیرہ احمر کی جہاز رانی کے راستوں تک پھیل چکا ہے۔ بلنکن اس معاملے پر بھی بات چیت کی امید رکھتے ہیں کہ اگر اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے اپنے مقصد کو حاصل کر لے تو غزہ پر کس طرح حکومت کی جا سکتی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ ترکی سمیت علاقائی ممالک غزہ پٹی میں تعمیر نو، نظم و نسق اور ممکنہ طور پر سکیورٹی کے امور سنبھالنے میں کردار ادا کریں۔ خیال رہے کہ غزہ کا کنٹرول 2007ء سے حماس کے پاس ہے۔
ش ر ⁄ اا (روئٹرز)