امریکی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پاکستانی وزیراعظم
12 ستمبر 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ افغان طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کی مدد کر کے’’افراتفری کے نمائندوں‘‘ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔
تاہم اسلام آباد حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ وہ شدت پسندوں کو کسی قسم کی مدد دے رہی ہے۔ پاکستان اس الزام کی بھی تردید کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی کوششیں نا کافی ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران 2001ء سے اس کے 60 ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں ملکی سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو ایک سو ارب ڈالرز کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔
سابق وزیر پٹرولیم 58 سالہ شاہد خاقان عباسی سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد وزیراعظم بنے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی طرف سے پاکستانی فوج یا انٹیلیجنس حکام کے خلاف پابندیوں سے امریکا کی انسداد دہشت گردی کوششوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور کوئی بھی ایسی چیز جو ان کوششوں میں کمی لائے، اُس سے امریکی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ پیر کے روز روئٹرز کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں عباسی کا مزید کہنا تھا، ’’اس سے کیا مقصد حاصل ہو گا؟‘‘
روئٹرز کے مطابق بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے متوقع پابندیوں میں ایسے پاکستانی حکام کو نشانہ بنایا جائے گا جن کے شدت پسندوں کے ساتھ مبينہ روابط ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کے لیے دیگر طرح کی پابندیوں پر بھی غور ہو رہا ہے جن میں امریکی امداد میں مزید کمی بھی شامل ہے۔
اپنے اس انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے فوجی امداد میں کمی اور امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کا راستہ روکنے سے پاکستان اس بات پر مجبور ہو گا کہ وہ چین اور روس سے ہتھیار خریدے، ’’ہمیں اپنی قومی دفاعی فورسز کی استداد کو برقرار رکھنے کے لیے دیگر ذرائع پر بھی غور کرنا پڑے گا۔‘‘